’مولانا فضل الرحمان کے ساتھ بیٹھنے کو تیار لیکن انہیں بعض شرائط ماننا ہوں گی‘
’مولانا فضل الرحمان کے ساتھ بیٹھنے کو تیار لیکن انہیں بعض شرائط ماننا ہوں گی‘
جمعرات 15 جون 2023 7:28
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
مولانا شیرانی کے مطابق مولانا فضل الرحمان جماعت کو ریوڑ اور ارکان کو بھیڑ بکریاں سمجھ رہے تھے۔ (فوٹو: سکرین گریب)
مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا محمد خان شیرانی نے کہا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہیں، انہیں بعض شرائط کو تسلیم کرنا ہو گا۔
مولانا محمد خان شیرانی نے کوئٹہ میں اردو نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’جمعیت علماء اسلام تقویٰ کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ اگر مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اب تقویٰ نہیں رہا تو جماعت کا نام کسان مزدور پارٹی رکھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کے ساتھ اتحاد سیاسی اصولوں کی بنیاد پر ہے اور اب بھی برقرار ہے۔ انتخابات ہماری نہیں اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت ہیں۔ انتخابات سے نظام بدلا نہیں جا سکتا بلکہ ان کے ذریعے مسلط نظام چلایا جاتا ہے۔ اس لیے ساتھیوں کو کہتا ہوں کہ ووٹ لو اور نہ ہی ووٹ دو۔‘
مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم ہو، پی ٹی آئی یا اسٹیبلشمنٹ، یہ سب ایک ہی گھر کے باشندے ہیں۔ اگر یہ آپس میں بیٹھ کر مسائل کو طاقت کی بجائے دلیل اور مفاہمت سے حل کریں تو وہ ملک اور قوم دونوں کے لیے بہتر ہو گا۔
عمران خان اور ان کے مخالفین کے درمیان ثالثی سے متعلق سوال پر مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا تھا کہ ’مفاہمت یا مصالحت کا کردار تو انسان تب ادا کر سکتا ہے جب فریقین میں اس کی کوئی طلب ہو ورنہ تو یہ ’تسی کون اسی خامخواہ‘ والی بات ہے۔‘
’اگر اسٹیبلشمنٹ، پی ڈی ایم یا کوئی کہیں تو پھر تو انسان کردار ادا کر سکتا ہے۔ مسائل کا حل ظلم و جبر کی بجائے مذاکرات اور افہام و تفہیم سے تلاش کرنا چاہیے۔‘
’سیاسی منظرنامے پر کسی کے آنے یا جانے کی اہمیت نہیں‘
اپنی اتحادی جماعت پی ٹی آئی میں توڑ پھوڑ پر مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا تھا کہ ’سیاسی منظرنامے میں اس کی اہمیت نہیں کہ کون جاتا اور آتا ہے یا کتنے جاتے اور کتنے آتے ہیں۔ اہمیت دو باتوں کی ہوتی ہے۔ سیاسی موقف معقول اور مدلل ہو، سیاسی رہبر مضبوط اور صبر و استقامت والا ہو۔ مظالم کو سہے اور جذباتی بن کر الجھاؤ پیدا نہ کریں۔ اپنی راہ اور موقف کو نہ بدلیں۔‘
’عمران خان کے ساتھ ہمارا سیاسی اتحاد سیاسی اصولوں پر ہے۔ وہ کوئی علاقائی یا ملکی نہیں بلکہ بین الاقوامی اتحاد ہے۔ ہماری رفاقت مستقل ہے البتہ معاونت تقویٰ کی بنیاد پر ہو گی۔ انحراف کی صورت میں ایک دوسرے کو سمجھائیں گے، ورنہ ہر کوئی اپنے عمل کا ذمہ دار خود ہو گا۔‘
’مولانا فضل الرحمان جماعت کو ریوڑ سمجھ رہے تھے‘
مولانا فضل الرحمان سے اختلافات سے متعلق سوال پر مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ ان کا اختلاف جماعت کو بطور وراثت اپنی ملکیت ظاہر کرنے پر ہے۔
’وہ جماعت کو بطور ریوڑ اور ارکان کو بھیڑ بکریاں سمجھ رہے تھے۔ سیاسی میدان کی تجارت کا سرمایہ جماعت اور ارکان ہوتے ہیں تو وہ (مولانا فضل الرحمان ) سمجھ رہے تھے کہ اگر ہم جماعتی انتخابات آزادانہ ماحول میں صلاحیت کی بنیاد پر کریں گے تو ممکن ہے کہ یہ سرمایہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے۔ انہوں نے ملکیت کا دعویٰ بطور وراثت کیا اور قانونی مجبوری کی وجہ سے دکھاوے کے لیے انتخابات کروائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وراثت میں استحقاق اور انتقال ہوتا ہے لیکن انتخاب میں ایسا نہیں ہوتا۔ دونوں کو یکجا نہیں کیا جا سکتا ورنہ انتخاب میں خیانت ہو گی۔‘
’جماعت کے اندر دیانت اور شفاف انتخابات کی صورت میں وراثت کے چلے جانے کا امکان تھا، اس لیے انہوں نے اپنے راستے کو تبدیل کیا اور جمعیت علماء اسلام کو اس کے دستور کے برخلاف الیکشن کمیشن میں ایف یعنی مولانا فضل الرحمان کے نام پر الاٹ کرایا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نہ تو الاٹ جماعت میں کسی کے مال تھے اور نہ ہی کسی گروپ میں ہم شامل تھے۔ راستہ انہوں نے علیحدہ کیا ہے۔ ہم مولانا فضل الرحمان کے ساتھ اب بھی مل بیٹھنے کو تیار ہیں۔ ہم نے حالیہ پروگراموں میں مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کے صوبائی امیر کو بھی شرکت کی دعوت دی ہے۔ ہم نے انہیں پیش کش کی ہے کہ آپ ہمیں بلائیں یا پھر ہمارے بلاوے پر آئیں۔‘
مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا تھا کہ ’ہماری جانب سے کوئی مسئلہ نہیں۔ ہم انہیں اپنے گروپ سے جمعیت علماء اسلام میں واپس آنے یا پھر الگ الگ تنظیموں کی صورت میں بھی چلنے کو تیار ہیں۔ اگر مولانا فضل الرحمان ہمارے ساتھ واپس ملنا چاہتے ہیں تو جمعیت علماء اسلام کے نام سے ایف کو خارج کریں۔ 2013ء اور 2014ء کی ممبر سازی کی تحقیقات کی جائیں۔ جماعت کے دستور میں ترامیم کو واپس لیں۔ صوبائی جماعت سے چھین کر مرکزی جماعت کو منتقل کیے گئے اختیارات واپس کیے جائیں۔‘
’اپنی جماعت کا نام مزدور کسان پارٹی رکھیں‘
’مولانا فضل الرحمان نے سکھر میں ہونے والے مجلس عمومی کے اجلاس میں کہا کہ ہم میں اب تقویٰ نہیں رہا۔ جمعیت علماء اسلام کا نام و عنوان تقویٰ سے ہٹ کر کسی اور بنیاد پر سجتا نہیں۔ اگر تقویٰ نہیں تو پھر منافقت، تجارت اور خیانت کی بجائے بہتر ہے کہ اپنی جماعت کا نام مزدور کسان پارٹی رکھیں اور کہیں سے اجرت ملتی ہے تو وہ پکڑ لیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’نو مئی کے واقعات پر کسی بحث میں پڑے بغیر غیرجانبدارانہ جوڈیشل انکوائری کی جائے، جو بھی مجرم ہو اسے سزا دی جائے۔ تخریب کسی صورت سیاست میں اور نہ شریعت میں صحیح ہے۔‘
’اسٹیبلشمنٹ اپنے کردار کا ملبہ عوامی نمائندوں پر ڈالتی ہے‘
مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ ’انتخابات اور جمہوریت عوام کی نہیں بلکہ مغربی دنیا، پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور منصب و دولت کے خواہشمند لوگوں کی ضرورت ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں اگر جمہوریت کے نتائج مغرب کے مفاد و مقاصد کی ضد میں آئیں تو وہ اس پر پانی پھیر دیتے ہیں۔‘
’پاکستان میں بھی اسٹیبلشمنٹ مغربی مقاصد کی وکیل اور مفادات کی محافظ ہے۔ وہ اس کردار کو چھپانے کے لیے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ لیا کرتی ہے اور اپنے کردار کا پورا ملبہ سیاسی جماعتوں اور جمہوری اداروں اور عوامی نمائندوں پر ڈالتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سیاسی جماعتیں اور جمہوری ادارے درمیان میں سے نکل جائیں تو لوگوں کی معاشی ضرورتیں تو اسٹیبلشمنٹ بھی پورا کر سکتی ہے ۔ یہ بہتر نہیں ہو گا کہ صرف اسٹیبلشمنٹ کھائے۔ اس وقت تو عوامی نمائندے، پھر ٹھیکے دار اور پھر پیٹی ٹھیکے دار فنڈز کھاتے ہیں اور کام کے لیے کچھ بچتا نہیں۔ اس لیے میں اپنے ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ ووٹ لو اور نہ ووٹ دو۔‘
’ووٹوں کے ذریعے عوام میں عداوتیں اور دشمنیاں پیدا کی جاتی ہیں تاکہ وہ آپس میں لڑیں اور اسٹیبلشمنٹ کے پاؤں میں سجدے کریں۔ اس کے باوجود بھی اگر ہمارا کوئی ساتھی انتخابات میں حصہ لینا چاہتا ہے تو میری وصیت اور نصیحت یہ ہو گی کہ صلاحیت والا جو بھی ہو گا، جس جماعت اور جس فکر کا بھی ہو گا، اس کے راستے کی رکاوٹ نہ بنیں۔‘
’ہمارے لیے الجھاؤ کی بجائے بناؤ بہتر ہے‘
مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ ’اسٹیبلشمنٹ بحیثیت ادارہ ہمارا نہیں ہے، یہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا ذیلی ادارہ ہے، البتہ افراد ہمارے اپنے ہیں۔ خدا کرے کہ ہم میں یہ عقل آ جائے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ذمہ دار اور سیاست کے زعما آپس میں مل بیٹھ کر اسٹیبلشمنٹ کی ادارہ جاتی مجبوری کو تسلیم کریں اور اسٹیبلشمنٹ اپنی شخصی ہمدردیوں کو شریک کریں تاکہ ایک ایسی پالیسی مرتب ہو کہ نہ تو ہم دنیا کے سامنے اکڑ جائیں اور نہ ہمارا خون بہے۔‘
انہوں نے عمران خان کا نام لیے بغیر انہیں مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے لیے الجھاؤ کے بجائے بناؤ بہتر ہے۔‘
انتخابی عمل میں حصہ لینا کیا غلطی تھی؟
اس سوال کے جواب میں سابق پارلیمنٹیرین کا کہنا تھا کہ ’ہماری ابتداء میں ذہنیت یہ تھی کہ جب عوامی نمائندہ کوئی بنے گا اور پھر پارلیمان میں جائے گا تو پھر گویا سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن تجربے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ پاکستان اسٹیبلشمنٹ کی جاگیر ہے اور ہم سب اس کے مزارعے ہیں۔ یہ صدر اور وزیراعظم جاگیردار کے منشی اور نائب کے جیسے ہیں۔ ہم سے ٹیکس جمع کرتے ہیں اور مالک کے پاس جمع کرتے ہیں۔