ن لیگ نے عندیہ دیا ہے کہ الیکشن تبھی ہوں گے جب نواز شریف سیاست میں واپس آئیں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
حکومت نے اپنا دوسرا اور اس کے اپنے بقول ’آخری بجٹ‘ بھی پیش کر دیا۔ آئی ایم ایف سے ڈیل ہنوز دور ہے اور دیوالیہ ہونے کا خدشہ اب واضح خطرہ بن چکا ہے۔
حکومت کافی حد تک آئی ایم ایف کے معاملات میں بے بس نظر آ رہی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام کے لیے مناسب ریلیف کا دور دور تک امکان نظر نہیں آ رہا۔ ایسے لگتا ہے کہ وہ اپنی معاشی پالیسیوں کے سیاسی اثرات سے بے پروا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ن لیگ نے اپنے جنرل کونسل کے اجلاس میں شریف خاندان کو بلامقابلہ مختلف پارٹی عہدوں پر منتخب بھی کر لیا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ الیکشن تبھی ہوں گے جب نواز شریف سیاست میں واپس آئیں گے۔
الیکشن کے انعقاد پر پہلے ہی کافی سوالیہ نشان تھے اب نواز شریف کی آمد بھی الیکشن سے مشروط ہو چکی ہے۔ حکومت کا عرصہ البتہ اگست میں ختم ہو رہا ہے اس لیے ان کی ترجیح اب سیاست ہے۔
سیاست کے بارے میں ملک میں کچھ المیہ اور کچھ طربیہ صورتحال ہے۔ پی ٹی آئی کے تقریباً معطل ہونے کے بعد ملک میں کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں رہ گئی جو اپوزیشن ہونے کا دعوی کر سکے۔ قومی اسمبلی میں راجہ ریاض اپوزیشن کے قائد ہیں اور نمائشی طور پر بھی قیادت کا دعوی نہیں کرتے۔
وہ اور ان کے ساتھی غالباً ن لیگ کی ٹکٹ یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے امیدوار ہوں گے۔ پیپلز پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، جے یو آئی اور ایم کیو ایم تمام حکومت میں ہیں۔ نو آموز استحکام پاکستان پارٹی کے کئی ممبران بشمول عون چوہدری بھی حکومت میں ہیں۔ حکومتی رہنما جہانگیر ترین اور علیم خان کی فہم و فراست کے گُن گاتے ہیں اور جواب میں بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے۔
پی ٹی آئی چھوڑنے والے رہنماؤں کے بارے میں متضاد خبریں ہیں مگر وہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ ان کا سیاسی مسقتبل تاریک ہے۔ جماعت اسلامی نے کراچی کی حد تک کچھ ٹف ٹائم دیا ہے مگر ملک میں مجموعی طور پر عملی اپوزیشن نہ ہونے کے برابر ہے۔
سوال البتہ یہ ہے کہ سیاست اپوزیشن کے بغیر کیسے چلے گی؟
اس سوال کا جواب دینے کا ن لیگ کے پاس تو شاید وقت نہیں کیونکہ ان کا اور جے یو آئی کا اعلانیہ منصوبہ یہی ہے کہ پی ٹی آئی کو سیاست کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے کچھ اضطراب اور کچھ پیشگی کوشش سامنے آئی ہے۔
انہوں نے باجود حکومت کی طرف سے دبے دبے تحفظات کے کراچی مئیر کا الیکشن اپنے حق میں کروا لیا اور ساتھ ہی ساتھ اعلان بھی کر دیا کہ اسی طرح بلاول بھٹو کو وزیراعظم بھی منتخب کرائیں گے۔
اس ہلکی پھلکی موسیقی کو ن لیگ نے فی الحال اگنور ہی کر دیا ہے۔ اس سیاسی چال میں پیپلز پارٹی کا دوہرا مقصد ہے۔ ایک تو ان کے سامنے تاریخ کا سبق ہے کہ سیاسی خلا زیادہ دیر تک نہیں رہتا اس لیے وہ چھوٹی پارٹی ہوتے ہوئے قومی اپوزیشن کا خلا پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جا سکتا ہے دونوں جماعتیں ایک نورا کشتی سا ماحول بھی رکھنا چاہتی ہیں۔
اس حکمت عملی پر البتہ ایک بہت نمایاں سوالیہ نشان ہے اور وہ ہے کہ اگر موجودہ سیاسی جماعتیں مل کر بھی سیاسی خلا نہ پر کر سکیں تو پھر سیاست کی کیا صورت ہو گی؟ ایک ممکنہ نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے الیکٹیبلز سے ہاتھ دھو کر نئے خون کے ساتھ سامنے آئے اور الیکشن میں یہ سیاسی خلا پر کر لے۔
دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے پی ٹی آئی الیکشن میں قصداً یا بحالت مجبوری نمایاں نہ ہو سکے مگر اس کے ساتھ الیکشن میں عوام کی طرف سے سرد مہری سامنے آئے اور الیکشن کے نتیجے میں ایسی حکومت بنے جس کو ساکھ کے بحران کا سامنا کرنا پڑے۔ تیسری صورت میں حکومتی اتحادیوں کی توقع ایسی سیاست اور الیکشن ہیں جن میں کچھ حد تک اپوزیشن بھی ہو، مگر نتیجہ ان کی مرضی کا ہو جس کو قبول عام بھی حاصل ہو جائے۔
یہ خواہش اور توقع کے ساتھ ایک بہت بڑا اگر منسلک ہے اور یہ جماعتیں اس منصوبے کے غیر یقینی ہونے کے بارے میں خود بھی متفق ہیں۔
جمہوریت سیاست کے ذریعے نشونما پاتی ہے اور سیاست گویا جمہوریت کا عکس ہوتی ہے۔ وہ جمہوریت جہاں سیاست میں اپوزیشن نہ ہو وہ عوام کی نمائندگی کے معیار پر پورا نہیں اتر سکتی۔
اس صورتحال کے دو ہی نتیجے نکلتے ہیں: سسٹم سے مایوسی یا پھر اجتجاج۔ ملک فی الحال دونوں ہی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ملک میں ووٹرز کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان کا ملک کی سیاست سے مایوس ہونا درحقیقت ملک سے مایوس ہونا ہو گا جس کے نتائج انتہائی پریشان کن ہوں گے۔
دوسری طرف اپوزیشن کے بغیر سیاست اور الیکشن کے دوران یا اس کے بعد احتجاج کی کیفیت بننے کے بھی امکانات ہیں جس کے علیحدہ مضمرات ہیں۔ اس لیے اس وقت اہل عقل و دانش کے پیش نظر ملکی سیاست اور جمہوریت کا مستقبل ہونا چاہیے جس کے لیے ایک متحرک اور حقیقی اپوزیشن ناگزیر ہے۔