Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یونان کشتی حادثہ: لواحقین کو اب بھی اپنے پیاروں کے بچ جانے کی امید

یونان میں پناہ گزینوں کے مرکز کے باہر کئی لوگ اپنے پیاروں کا پتا لگانے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ فوٹو: روئٹرز
یونان میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کا دردناک حادثہ پیش آئے سات روز گزر گئے ہیں لیکن پھر بھی متاثرین کے اہل خانہ اپنے پیاروں کی تصاویر اٹھائے روزانہ اس امید سے پناہ گزینوں کے مرکز کے باہر کئی گھنٹے گزار دیتے ہیں کہ شاید زندہ بچنے کی کوئی خبر سننے کو مل جائے۔
برطانوی اخبار دا گارڈین کے مطابق پیر کو بھی یونان کے دارالحکومت ایتھنز کے شمال میں واقع پناہ گزینوں کے مرکز کے باہر ایسے ہی کچھ جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے جہاں کئی فیملیز اپنے پیاروں کا پتا لگانے کے لیے بے تاب تھیں۔
پناہ گزینوں کے مرکز کے باہر موجود زوہیب شمریز نے بتایا کہ وہ اپنے انکل محمد ندیم کا معلوم کرنے آئے ہیں۔
’مجھے یقین ہے کہ وہ اس کشتی میں موجود تھے کیونکہ سوار ہونے سے پانچ منٹ پہلے ہی میں نے ان سے بات کی تھی۔ انہوں نے بتایا تھا کہ سینکڑوں کی تعداد میں افراد اس کشتی میں سوار ہیں اور میں نے ان سے کہا بھی تھا کہ ’براہِ مہربانی اس پر نہ سوار ہوں۔ دوسری کشتی کا انتظار کریں۔‘
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے منگل اور بدھ کی درمیانی شب یونان کے شہر پیرلوس کے جنوب مغرب میں کشتی ڈوبنے کا حادثہ پیش آیا تھا جس میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔
شعیب شمریز نے بتایا کہ ان کے انکل ندیم محمد کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ہے اور وہ غربت کی وجہ سے ملک چھوڑنا چاہتے تھے۔
’ان کے تین بچے تھے اور وہ 20 ڈالر کی یہاڑی پر مزدوری کرتے تھے۔‘
شعیب شمریز نے اپنے انکل کی ایک دن پہلے کی تصویر بھی دکھائی جب وہ آنکھوں میں ہزاروں خواب لیے لبیا سے اس کشتی پر سوار ہوئے تھے۔
تقریباً 750 مرد، عورتیں اور بچے لیبیا سے اٹلی جانے والی اس کشتی پر سوار تھے جن میں سے بیشتر کا تعلق پاکستان سے تھا۔

مہاجرین کی کشتی ڈوبنے کے متعدد واقعات کے خلاف یونان کے شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ فوٹو: اے ایف پی

یونان  میں 30 ہزار افراد پر مشتمل پاکستانی کمیونٹی کے سربراہ شاہد نواب نے بتایا کہ اب تک کی معلومات کے مطابق تقریباً 400 پاکستانی کشتی میں سوار تھے۔
’حادثے میں بچنے والے 104 افراد میں سے صرف 12 کا تعلق پاکستان سے ہے جنہیں کیمپ میں رکھا گیا ہے۔ جبکہ 78 لاشیں جو ملی ہیں ان میں سے ہمارے خیال میں اکثریت پاکستانیوں کی ہے۔‘
شاہد نواب جو خود سال 2000 میں پاکستان سے یونان گئے تھے کے خیال میں اُس وقت یورپ جانا بہت آسان ہوتا تھا۔
یونان کے حکام کا کہنا ہے کہ جن افراد کو بچایا گیا ہے ان میں پاکستانی، مصری، شامی اور افغان شہری شامل ہیں۔
وزیراعظم شہبازشریف نے یونان کے ساحل کے قریب کشتی ڈوبنے کے حادثے میں پاکستانیوں کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے انسانی سمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا ہے جبکہ پیر کو یومِ سوگ منایا گیا تھا۔
وزیراعظم نے واقعے کی تحقیقات کے لیے چار رُکنی اعلٰی سطح کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے اور نیشنل پولیس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل احسان صادق کو کمیٹی کا چئیرمین مقرر کیا گیا ہے۔
پیر کو پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کشتی ڈوبنے کے حادثے میں ملوث ایجنٹ کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

لیبیا سے اٹلی جانے والی کشتی میں تقریباً 750 افراد سوار تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

ایف آئی اے حکام نے ایجنٹ کی گجرات سے گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ سمگلر کا تعلق وزیرآباد سے ہے جس نے ایک شہری کویونان بھجوانے کے لیے 23 لاکھ روپے وصول کیے۔
ملزم نے دیگر ساتھیوں کی ملی بھگت سے متاثرہ شہری کو یورپ بھجوانے کے لیے رقم وصول کی تھی۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی پولیس نے 10 افراد کو گرفتار کیا ہے جو مبینہ طور پر مقامی نوجوانوں کو یورپ جانے کے لیے لیبیا بھیجنے میں ملوث تھے۔
حکام نے بتایا تھا نو افراد کو کشمیر اور ایک کو گجرات میں حراست میں لیا گیا ہے۔
بحری جہاز میں کتنے پاکستانی سوار تھے، کتنے زندہ بچ گئے اور کتنے ہلاک ہوئے اس حوالے سے کوئی سرکاری معلومات سامنے نہیں آئیں تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ مجموعی تعداد 200 سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

شیئر: