Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبرپختونخوا کا بجٹ، مالی بحران کے باوجود سرکاری ملازمین کے الاؤنسز میں اضافہ

نئے مالی سال کے چار مہینوں میں ترقیاتی بجٹ کی مد میں ٹوٹل 112.385 ارب روپے مختص کیے گئے (فوٹو: اے ایف پی)
خیبرپختونخوا کی نگراں حکومت نے گریڈ ایک سے 16 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 35 جبکہ گریڈ 17 سے 22 کے افسران کی تنخواہوں میں 30 فیصد ایڈہاک ریلیف میں اضافے کی منظوری دی ہے۔
نگراں صوبائی حکومت نے مالی سال 2023-24 کے چار مہینوں کے لیے 462.426 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا جس میں کرنٹ بجٹ کی مد میں کل 350.041 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
نئے مالی سال کے چار مہینوں میں ترقیاتی بجٹ کی مد میں ٹوٹل 112.385 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ نگراں صوبائی حکومت نے مالی مشکلات کے باوجود سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے۔
گریڈ ایک سے 16 کے صوبائی ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد ایڈہاک ریلیف جبکہ گریڈ 17 سے 22 تک کے صوبائی ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد ایڈہاک ریلیف کا اضافہ کیا گیا۔ اس اضافے سے آئندہ چار ماہ میں دو ارب 96 کروڑ 77 لاکھ کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
نگراں کابینہ نے صوبائی ملازمین کے سفری الاؤنس میں 50 فیصد اضافے کی منظوری دیدی ہے جس سے آئندہ چار ماہ کے اخراجات کا تخمینہ 13 کروڑ 38 لاکھ روپے لگایا گیا ہے اسی طرح سیکریٹیریٹ پرفارمنس الاؤنس میں 100 فیصد اضافہ کردیا گیا۔ اس اضافے سے اخراجات کا تخمینہ 517 ملین روپے لگایا گیا ہے۔
بجٹ میں صوبائی ملازمین کے آرڈرلی الاؤنس کو 14ہزار سے بڑھا کر 25 ہزار روپے کر دیا گیا ہے، جبکہ ڈیپوٹیشن الاؤنس میں بھی 50 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ نگراں کابینہ نے مزدور کی کم سے کم اجرت 26 ہزار سے بڑھا کر 32 ہزار کرنے کے علاوہ او ایس ڈی افسران کے لیے ایگزیکٹو الاؤنس کی منظوری دے دی۔ اسی طرح صوبائی حکومت کی پنشن میں 17.5 فیصد کے اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔  
کیا خزانہ تنخواہوں کا بوجھ برداشت کر سکے گا؟ 
خیبرپختونخوا کے نگراں مشیر خزانہ حمایت اللہ خان نے اردو نیوز کے سوال پر موقف اپنایا کہ ’یقیناً صوبہ مالی بحران کا شکار ہے، لیکن ہم سرکاری ملازمین کو نظر انداز نہیں کرسکتے تھے جبکہ وفاق نے پہلے ہی سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھا دی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ نگراں حکومت غیر جانبدار ہے۔ ہم نے سیاست نہیں کرنی اور نہ سرکاری ملازمین کو خوش کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا بلکہ یہ سرکاری ملازمین کا حق ہے۔‘ 
مشیر خرانہ حمایت اللہ نے مزید کہا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔ صوبے کے بقایاجات کی ادائیگی سے متعلق جلد بڑی خوشخبری ملے گی۔

مزدور کی کم سے کم اجرت 26 ہزار سے بڑھا کر 32 ہزار کی گئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ کہ نگران حکومت کے چار ماہ کے بجٹ میں کسی قسم کا قرضہ شامل نہیں ہے۔ اس سے پہلے حکومت نے ہر ماہ 30 سے 40 ارب روپے کی ماہانہ اوور ڈرافٹنگ کی ہے۔
نگراں مشیر خزانہ نے کہا کہ مالی مشکلات کے باعث نئے منصوبوں اور نئی بھرتیوں پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔
کیا نگران حکومت سرکاری ملازمین کو سیاسی رشوت دے رہی ہے؟ 
سینیئر صحافی محمد فہیم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’نگراں حکومت نے سیکریٹیریٹ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ مجبوری میں کی ہے کیونکہ وہ پہلے ہی احتجاج پر تھے اور دوسری بات تنخواہوں اور پنشن میں اضافے سے خزانے پر چار مہینوں میں صرف 35 ارب کا بوجھ پڑ رہا ہے جو اتنا زیادہ نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت نے اگر سرکاری ملازمین کو خوش کرنا ہوتا تو ایک لاکھ 35 ہزار اساتذہ کی اپگریڈیشن نہ روکتے بلکہ منظوری دیتے کیونکہ آگے الیکشن میں انہی اساتذہ نے کردار ادا کرنا ہے۔ صحافی محمد فہیم نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت نے وفاق سے بات کر لی ہے اگر ان کو پہلی قسط میں فنڈز جاری ہوئے تو کافی حد تک خزانے پر بوجھ کم ہوجائے گا۔

شیئر: