Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل: سپریم کورٹ بینچ ایک مرتبہ پھر ٹوٹ گیا

پاکستان کی سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والا سات رکنی لارجر بینچ ایک مرتبہ پھر ٹوٹ گیا ہے۔
پیر کو چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ کی شمولیت پر لگائے گئے اعتراض کے حوالے سے آگاہ کیا۔
اٹارنی جنرل نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے حوالے سے کہا کہ ایک درخواست گزار جسٹس منصور علی شاہ کے رشتہ دار ہیں، اس لیے ان کے کندکٹ پر اثر پڑ سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس عدالت کے معزز جج پر اعتراض اٹھا رہے ہیں، آپ کی چوائس یا خواہش پر بینچ نہیں بن سکتے۔
اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ’میں نے تو پہلے ہی دن آکر کہا تھا کسی کو اعتراض ہے تو بتا دیں،‘ جس کے بعد انہوں نے خود کو بینچ سے علیحدہ کر لیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ ’میں اپنا کنڈکٹ اچھی طرح جانتا ہوں، کوئی ایک انگلی بھی اٹھا دے میں پھر کبھی اس بینچ کا حصہ نہ رہتا۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بینچ میں شامل رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ جج صاحب خود کریں گے جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’میرے خیال سے اعتراض کے بعد میرا اس بینچ  میں شامل رہنا نہیں بنتا۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا تھا جس میں جسٹس اعجالاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی،جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور  جسٹس عاٸشہ ملک بینچ کا حصہ تھے۔
گیارہ بجے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے دوبارہ سماعت کا آغاز کیا۔  
چھ رکنی اس لارجر بینچ میں جسٹس اعجالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عاٸشہ ملک شامل ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے جمعرات کو فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والا نو رکنی بینچ پہلی مرتبہ تب ٹوٹا تھا جب بینچ میں شامل جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس سردار طارق مسعود نے یہ کہتے ہوئے بیٹھنے سے انکار کر دیا کہ ’بینچ کی تشکیل قانون کے مطابق نہیں ہوئی۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ’میں اس بینچ کو ’بینچ‘ نہیں سمجھتا۔ میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا۔ پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ کیا جائے۔ میرا موقف یہ ہے کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجربل کو ٹھکانے نہ لگایا جائے تب تک میں کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا۔‘
گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے نو رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا جس میں سینیئر ترین جج قاضی فائز عیسٰی طویل عرصے بعد کسی بینچ کا حصہ تھے۔
سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے ملٹری کورٹس کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ اس کے علاوہ سابق وزیر اعظم عمران خان، اعتزاز احسن اور کرامت علی اور دیگر نے بھی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔

شیئر: