Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں ’صنفی امتیاز‘ کے ملبے تلے دبی عورت کی ’دھاڑ‘

کہانی انڈین راجھستان کے قصبے منڈاوا میں ایک لڑکی کی گم شدگی سے شروع ہوتی ہے۔ فائل فوٹو: سکرین گریب
اگر آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو سکون سے بیٹھ کر تین گھنٹے کی بالی وڈ فلم دیکھ سکتے ہیں تو پھر آپ کے لیے یہ سیزن دیکھنا کافی آسان ہے۔ کہانی نئی تو نہیں لیکن بہت تفصیل کے ساتھ فلمائی گئی ہے اور کافی جگہ کہانی کو کھینچا بھی گیا ہے جسے ’ڈریگ‘ کہنا درست ہوگا۔ سیزن کی آٹھ اقساط ہیں مگر چھ میں بھی کام ہو سکتا تھا اسی لیے اگر تفصیل پسند ہے تو یہ سیزن دیکھنے کی ہمت آپ کر سکتے ہیں۔
بالی وڈ اداکارہ سوناکشی سنہا نے اس سیزن کے ذریعے چھوٹی سکرین پر رو نمائی کی ہے اور انجلی بھاٹی نامی سینیئر انسپکٹر کا رول نبھایا ہے۔ ولن کا کردار ادا کیا ہے وجے ورما نے جو اس سے پہلے پنک اور گلی بوائے جیسی مشہور فلموں میں کام کر چکے ہیں اور مرزا پور کے پہلے سیزن میں دو جڑواں بھائیوں کا کردار بھی کر چکے ہیں۔
کہانی کا پلاٹ ایک سیریل کلر جو کہ ایک نفسیاتی قاتل ہے (سائیکوپاتھ) کے گرد گھومتا ہے جو معصوم لڑکیوں کو شادی کا جھانسہ دے کر اُن کے زیور اور نقدی تو لوٹتا ہی ہے مگر اگلی صبح ہی لڑکی کی لاش کسی پبلک ٹوائلٹ سے ملتی ہے جب کہ جسم پر کوئی زور زبردستی کے نشان نہیں ہوتے لیکن سب کے قتل کا طریقہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ یہی انداز پولیس کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ یہ ایک ہی آدمی کا کام ہے۔
اس سیزن میں ان تمام معاشرتی رویوں کی عکاسی کی گئی ہے جو اس حقیقت کی آئینہ دار ہیں کہ وہ قاتل لڑکیوں کو آخر کیسے قائل کر لیتا ہے کہ وہ اس کے پاس چلی آئیں۔ یہ وہی زمینی حقائق ہیں جن پر معاشرے نے انصاف کی دیوی کی طرح آنکھوں پر کالی پٹی باندھ رکھی ہے اور سب اچھا کا جاپ جاری ہے۔
کہانی انڈین راجھستان کے قصبے منڈاوا میں ایک لڑکی کی گم شدگی سے شروع ہوتی ہے جس کی جانچ کرتے کرتے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیسیوں ہی لڑکیاں لاپتہ ہیں لیکن ان کے گھر والوں نے کوئی رپورٹ نہیں لکھوائی یا اگر لکھوانے کوئی آیا بھی تو پولیسں کے روایتی سرد رویے کے پیشِ نظر کوئی کام نہیں بن سکا۔
ذات پات کا نظام اور صنفی امتیاز اس سیزن کی کہانی کا مرکزی خیال ہیں۔ نیچ ذات میں شادی، لڑکی کے والدین پر جہیز کا بوجھ اور نوجوان لڑکیوں پر یہ خاندانی دباؤ کہ جلد از جلد شادی ہو جائے تا کہ ’بوجھ‘ سر سے اتر جائے جیسی باتوں کی نفی پر زور دیا گیا ہے۔ اس بات کے حوالے بھی دیے گئے ہیں کہ اگرچہ 1948 میں، برطانوی راج سے آزادی کے ایک سال بعد، انڈیا نے ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک پر پابندی لگا دی تھی۔ یہ ملک کے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود ذات پات کے دھارے انڈیا کی سیاست، تعلیم، روزگار اور یہاں تک کہ روزمرہ کے سماجی معاملات میں بھی شامل رہتے ہیں۔
وجے ورما کا کردار آنند سوارنکار اسی نظام کی دراڑوں سے فائدہ اٹھا کر نچلی ذات کی لڑکیوں کو سہانے خواب دکھاتا ہے اور گمراہ کر کے لے جاتا ہے۔ زیادہ تر یہ دکھایا گیا ہے کہ والدین لڑکی کے بھاگنے پر شرمسار تو ہیں ہی لیکن ساتھ ساتھ مطمئن بھی ہیں کہ چلو سر سے ’بوجھ‘ اتر گیا۔ دوسری طرف انسپکٹر انجلی بھاٹی خود ایک کم تر ذات سے تعلق رکھتی ہے لیکن وہ اس کیس کو اپنے لیے زندگی اور موت کا مسلہ بنائے ہوئے نظر آتی ہے۔
سیزن راجھستان کے علاقوں جیسلمیر اور اودے پور میں فلمایا گیا ہے۔ مجھے کوئی ایسی جگہ نظر نہیں آئی جسے سیٹ کہا جا سکے۔ تمام شوٹنگ باقاعدہ گھروں، حویلیوں اور محلوں میں کی گئی ہے۔ اگر آپ کو راجھستانی طرزِ تعمیر پرکشش لگتا ہے تو اس سیزن میں دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
سوناکشی سنہا نے یہ کردار نبھانے کے لیے باقاعدہ موٹر سائیکل چلانا سیکھی ہے کیوں کہ یہ انسپکٹر انجلی کے کردار کی ڈیمانڈ تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ اب موٹر سائیکل چلانا ان کا جنون بن چکا ہے اور اب وہ اکثر رات کو یہ شوق پورا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ راجھستانی لہجہ بھی انھوں نے خوب اپنایا ہے۔ مشکل سے ہی کہیں ’ش‘ کا حرف سوناکشی کے منہ سے نکلتا سنائی دیتا ہے۔

سیزن راجھستان کے علاقوں جیسلمیر اور اودے پور میں فلمایا گیا ہے۔ فائل فوٹو: انسٹاگرام

دھاڑ کے تخلیق کاروں میں ریما کاگٹی کے ساتھ زویا اختر کا نام بھی شامل ہے جو کہ مشہور گیت نگار جاوید اختر کی صاحب زادی ہیں اور گلی بوائے، زندگی نہ ملے گی دوبارہ اور دل دھڑکنے فلمیں بنا چکی ہیں۔
کہانی کو اتنا کھینچنے کے بعد اختتام ذرا جلدی میں کر دیا گیا ہے لیکن پھر بھی سکرپٹ اور مکالمے بہ شمول اداکاری جاندار ہیں۔ بالی وڈ ہنگامہ ویب سائٹ کے مطابق اس سیزن کی ریٹنگ پانچ میں سے چار ہے جب کہ آئی ایم ڈی بی اس کو دس میں سے ساڑھے سات نمبر دیتا ہے۔
میرے خیال سے ذات پات اور صنفی امتیاز کے ملبے تلے صدیوں سے دبی عورت کی یہ ’دھاڑ‘ بلا شبہ سننے لائق ہے۔

شیئر: