Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لائیو سٹاک پالیسی پر انڈسٹری اور حکومت میں اختلافات کیوں؟

پاکستان کے اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں اس وقت 10 لاکھ سے زائد اونٹ موجود ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
عید الاضحٰی کے موقع پر پاکستان میں لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں جن میں بڑی تعداد میں گائے، بیل اور بکرے شامل ہوتے ہیں جبکہ ہزاروں کے حساب سے اونٹ بھی ذبح کیے جاتے ہیں۔
قربان کیے جانے والے تمام جانور پاکستان کی مقامی پیداوار ہوتے ہیں۔ پاکستان سے سالانہ 80 ہزار ٹن گوشت اور 66 ہزار ٹن دودھ سمیت اون، بال، ہڈیاں، کھالیں اور دیگر مصنوعات برآمد بھی کی جاتی ہیں۔
ایک زمانے میں پاکستان سے زندہ جانور بھی بیرون ملک ایکسپورٹ کیے جاتے تھے لیکن 2013 سے اسے روک دیا گیا ہے۔ اس وقت کی وفاقی حکومت نے ای سی سی کے فیصلے کے ذریعے زندہ جانور بیرون ملک بھیجنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
وزارت غذائی تحفظ کے مطابق اس پابندی کی وجہ مقامی سطح پر چمڑے کی مصنوعات کے لیے خام مال کی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ گوشت اور دیگر مصنوعات کے ذریعے اضافی زرمبادلہ کمانا تھا۔
وزارت غذائی تحفظ کے مطابق پاکستانی کی زرعی آمدنی کا 60 فیصد لائیو سٹاک کے ذریعے حاصل ہوتا ہے جو کہ ملکی جی ڈی پی کا 11 فیصد ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 35 فیصد یعنی آٹھ کروڑ خاندان اس کاروبار سے منسلک ہیں اور اپنی مجموعی آمدن کا 40 فیصد اس سے حاصل کرتے ہیں۔
پاکستان کے اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں اس وقت پانچ کروڑ 50 لاکھ سے زائد گائیں، چار کروڑ 50 لاکھ بھینسیں، تین کروڑ 20 لاکھ 30 ہزار بھیڑیں، آٹھ کروڑ 40 لاکھ 70 ہزار بکریاں اور 10 لاکھ سے زائد اونٹ موجود ہیں۔

پاکستان کی لائیو سٹاک پالیسی کیا ہے؟

پاکستان میں لائیو سٹاک شعبے کو فروغ دینے کے لیے ملک کی پہلی لائیو سٹاک پالیسی کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے جسے متعلقہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد منظوری کے لیے کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔
پالیسی کے تحت حلال گوشت، دودھ، مکھن اور دیگر مصنوعات کی برآمدات کو بڑھانے کے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے مطابق پاکستان کی سالانہ حلال گوشت اور مصنوعات کی برآمدات کی مالیت 53 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ اس  پالیسی کا مقصد حلال گوشت، دودھ، مکھن اور دیگر مصنوعات کی برآمدات کو بڑھانا ہے۔

پاکستان نے بیرون ملک زندہ جانور ایکسپورٹ کرنے پر 2013 میں پابندی لگا دی تھی۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

پالیسی مسودے کے مطابق پاکستان آئندہ 10 برسوں میں لائیو سٹاک برآمدات میں بے پناہ اضافے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ غذائی تحفظ، غربت میں کمی اور قومی آمدنی میں اضافہ بھی پالیسی کے اہم اہداف میں شامل ہیں۔ جدید آرگینک لائیو سٹاک فارمنگ کے منصوبے کے تحت فارمی جانوروں کی تعداد کو بڑھایا جائے گا جو اس وقت 12 کروڑ ہیں۔
اس کے علاوہ فوڈ سیفٹی، اینیمل اینڈ پلانٹ ہیلتھ اتھارٹی کے قیام کے لیے بھی قانون سازی کی جائے گی۔ فوڈ سیفٹی اور جدید لیبارٹری سسٹم پر تحقیق کے لیے مزید فنڈز مختص کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ پالیسی میں ماڈل میٹ پروڈکشن فارمز کے قیام کی بھی تجویز دی گئی ہے۔
زندہ جانوروں اور مویشیوں کو برآمد کرنے کے بجائے ان سے حاصل کی جانے والی مصنوعات کی تجارت کو ترجیح دینے کی تجویز ہے۔
تاہم لائیو سٹاک ایکپسورٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے اس پالیسی کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
لائیو سٹاک ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے گروپ لیڈر جواد کاظمی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ جن وجوہات کی بنیاد پر زندہ جانوروں کی برآمد پر پابندی لگائی گئی تھی وہ اہداف بھی حاصل نہیں کیے جا سکے۔
ان کے مطابق ’چمڑے کا کاروبار کرنے والوں نے پابندی لگوانے کے لیے لابنگ کی تھی لیکن آپ پچھلے کئی برسوں کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں، کھالوں کی قیمتیں کم ہوئی ہیں۔ جس سے ظاہر ہے کہ زرمبادلہ بھی کم آئے گا۔‘
جواد کاظمی نے کہا کہ ’جب ہم زندہ جانور باہر بھیج رہے تھے تو لوگ جانور پال رہے تھے کہ ان کے جانور بک جائیں گے۔ اب کسان جانور پالتا ہے، اس پر خرچہ کرتا ہے لیکن اس کو اپنا خرچ کیا ہوا پیسہ بھی واپس نہیں ملتا تو وہ جانور نہیں بیچتا جس سے مارکیٹ میں کم جانور آتا ہے اور قیمتیں اوپر چلی جاتی ہیں۔‘

وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے مطابق پاکستان کی سالانہ حلال گوشت اور مصنوعات کی برآمدات کی مالیت 53 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ (فائل فوٹو: پکسابے)

انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی روس، ایران، افغانستان، وسط ایشیائی ممالک میں پاکستانی جانوروں کی مانگ ہے۔ پاکستان میں اعلٰی معیار کے سلاٹر ہاوس نہ ہونے کی وجہ سے بھی یہ ممالک زندہ جانور خریدنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

لائیو سٹاک کے شعبہ کو درپیش چیلنجز

معیشت میں لائیو سٹاک کے شعبے کی نمایاں شراکت کے باوجود کئی ایسے چیلنجز ہیں جن سے نمٹنے کے لیے اس شعبے کی اصلاح یا تنظیم نو کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں لائیو سٹاک کے شعبے میں بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے۔ جس میں سڑکیں، پانی کی ناکافی فراہمی، اور ذخیرہ کرنے اور پروسیسنگ کی ناکافی سہولیات شامل ہیں۔ جبکہ مویشیوں کی مصنوعات کی مارکیٹنگ بڑی حد تک غیر رسمی اور غیر منظم ہے۔ پاکستان میں لائیو سٹاک کے شعبے کی اصلاح یا تنظیم نو کے لیے فوری طور پر ایک متفقہ قومی لائیو سٹاک پالیسی کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
ممتاز زمیندار اور مویشی پال چوہدری مشتاق حسین نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’لائیو سٹاک کے شعبے میں نئی نسلوں کی نشوونما اور جانوروں کی پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے خوراک اور انتظام کے طریقوں میں بہتری کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی حوصلہ افزائی لائیو سٹاک کے شعبے میں سرمایہ کاری کو آسان بنا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پروسیسنگ اور ویلیو ایڈیشن کی سہولیات کے قیام میں بھی اگر حکومت عوامی شراکت داری کو یقینی بنائے تو بھی بہتری لائی جا سکتی ہے۔
چوہدری مشتاق حسین کے مطابق پاکستان میں لائیو سٹاک کا شعبہ معیشت اور بہت سے دیہی گھرانوں کی روزی روٹی کے لیے بہت اہم ہے۔ مناسب اقدامات کے ذریعے سیکٹر کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے سے اصلاح یا تنظیم نو، پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔ لائیو سٹاک کے شعبے میں اصلاحات کے لیے حکومت، نجی شعبے، کسانوں اور این جی اوز سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

وزارت غذائی تحفظ کے مطابق پاکستانی کی زرعی آمدنی کا 60 فیصد لائیو سٹاک کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ (فائل فوٹو: پکسابے)

مُنہ کھر بیماری سے فری زون قائم کرنے کی ضرورت

ڈیری فارمرز اینڈ کیٹل ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین شاکر عمر گجر کے مطابق ملکی ضروریات پوری کیے بغیر برآمدات میں اضافے کی کوششیں مقامی صارف کی جیب پر بوجھ بنتی ہیں۔ اس سے نہ صرف دودھ اور گوشت کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ قربانی کے لیے جانوروں کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے ملک کو منہ کھر کی بیماری سے پاک کر کے عالمی سطح پر یہ ثابت کرنا ہو گا کہ یہ بیماری پاکستان سے ختم ہو چکی ہے۔
شاکر عمر گجر نے کہا کہ پاکستان میں مویشی مختلف بیماریوں سے دوچار ہیں، جس سے اس شعبے کو کافی نقصان ہوتا ہے۔ ویٹرنری خدمات تک رسائی کی کمی اور ویکسین کا مناسب استعمال نہ کرنا اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ کم از کم پنجاب جو اس شعبے کا 70 فیصد کا مالک ہے، اپنی سرحدوں پر ویکسین لازمی قرار دے دے تو مسئلہ کافی حد تک حل ہو سکتا ہے۔

شیئر: