اس طرح کے پروگرام مستقبل کے خلاباز، سائنسدان اور انجینئر بننے کی ترغیب دیتے ہیں۔ فوٹو ٹوئٹر
دو سعودی خلابازوں کے حال ہی میں Axiom مشن 2 کے تحت بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر جانے سے مملکت ان ممالک میں شامل ہو گیا جو کئی دہائیوں سے انسان بردار خلائی پروازوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق سعودی خلائی ایجنسی میں خصوصی مشیر کے طور پر خدمات انجام دینے والی ایرو سپیس انجینئر اور سعودی انٹرپرنیور مشعال اشممری نے بتایا ہے کہ یہ خلائی مشن انسانیت کو فائدہ پہنچانے کے ساتھ ساتھ سعودیوں کی آئندہ نسلوں کے لیے مفید ثابت ہوگا۔
حالیہ مشن میں خلا سے ہو کر آنے والے سعودی خلابازوں ریانہ برناوی اور علی القرنی نے آئی ایس ایس کے مائیکرو گریوٹی ماحول میں مختلف قسم کے 14 تجربات کیے ہیں۔
سعودی خلابازوں کو خلا میں لے جانے والا افتتاحی مشن سعودی عرب کے انسانی خلائی پرواز پروگرام کا حصہ تھا جس کا مقصد طویل اور مختصر قیام کے لیے پائیدار ہونا ہے۔
ایروسپیس انجینئر مشعال نے بتایا ہے کہ خلا میں طویل قیام عام طور پر تقریباً 180 دن کا ہوتا ہے جب کہ مختصر قیام چند دنوں سے لے کر دس دن کے درمیان کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انسانی خلائی پرواز کے پروگرام کا مقصد مجموعی طور پر سائنسی کامیابی اور سائنسی دریافت ہے۔
انجینئر مشعال نے کہا کہ خلائی مشن تحقیق کے لیے انتہائی فائدہ مند ہیں اور سعودی مشن مائیکرو گریوٹی ماحول سے بھی فائدہ اٹھایا جائے گا جو زمین کے مقابلے میں بہت مختلف حالات پیش کرتا ہے اور بعض تجربات کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ کشش ثقل سے باہر بے وزن صورتحال میں کئے گئے سائنسی تجربات مختلف انداز میں دیکھے جاتے ہیں۔
ایرو اسپیس ماہر نے مزید کہا کہ انسانی جسم پر تابکاری کے اثرات اور اس کے ردعمل پر بھی تحقیق کی جا سکتی ہے تا کہ ایسے ذرائع تیار کیے جا سکیں جس سے لوگ خلا میں زیادہ وقت گزار سکیں جس میں مستقبل میں مریخ کے مشن کا پروگرام بھی شامل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس طرح کے پروگراموں کے ساتھ ہم آئندہ نسلوں کو مستقبل کے خلاباز، سائنسدان اور انجینئر بننے کی ترغیب دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس پر توجہ دینے سے مختلف عمر کے بچوں کے لیے سائنسی تجربات کی تیاری کا مقصد ان کی سوچ کی صلاحیتوں کو بڑھانا تھا۔
سعودی عرب کی مزید خبروں کے لیے واٹس ایپ گروپ جوائن کریں