’لوگ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں‘، پہلی خاتون سائیکلسٹ پرنسپل
’لوگ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں‘، پہلی خاتون سائیکلسٹ پرنسپل
جمعہ 7 جولائی 2023 5:58
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز
گورنمنٹ محمڈن اینگلو کالج (ایم اے او کالج) کا شمار لاہور کے قدیم ترین تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ سنہ 1933 میں قائم ہونے والے اس کالج میں کبھی کوئی خاتون بطور پرنسپل تعینات نہیں ہوئی۔
ڈاکٹر عالیہ رحمان خان وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے دہائیوں سے چلی آ رہی اس روایت کے برعکس ادارے میں پہلی خاتون پرنسپل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
ڈاکٹر عالیہ رحمان نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ماسٹرز، جامعہ پنجاب سے ایم فل جبکہ آسٹریا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔
ان دنوں ڈاکٹر عالیہ رحمان اپنے ایک ایسے اقدام کے بعد زیربحث آئی ہیں کہ جس کی بدولت وہ پاکستان میں مثبت تبدیلی لانا چاہتی ہیں۔
وہ کلین اینڈ گرین پاکستان سمیت خواتین کو خودمختار بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے اپنی تگ و دو طویل عرصے سے جاری رکھی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر عالیہ رحمان کو اس وقت پاکستان بھر میں اس لیے سراہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھر سے کالج تک کا سفر سائیکل پر طے کرتی ہیں تاکہ لاہور کو فضائی آلودگی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کیا جا سکے۔
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کے دوران سائیکل سیکھنے کے متعلق بتایا کہ ان کے والد نے بچپن میں ہی انہیں سائیکل چلانا سکھا دیا تھا تاہم اسے مستقل ذریعہ سواری بنانے سے متعلق انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا، یوں وہ کافی عرصے تک گاڑیوں میں ہی سفر کرتی رہیں۔
سائیکل کے باقاعدہ استعمال کا آغاز
’جب میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے آسٹریا گئی تو میری یونیورسٹی اور گھر کے درمیان پانچ کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ پیدل جانے میں وقت زیادہ ضائع ہو جاتا تھا۔ اس لیے میں نے ٹرام سروس استعمال کرنا شروع کی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ٹرام سروس استعمال کرنے کے دوران وہ اپنے اردگرد کی خوبصورتی سے محظوظ نہیں ہو سکتی تھیں، اس لیے انہوں نے سائیکل خریدی اور یونیورسٹی آنے جانے کے لیے اس کا استعمال شروع کر دیا۔
'تب سے مجھے سائیکل کی عادت ہو گئی ہے اور یہ میری زندگی کا اہم ترین حصہ بن گئی ہے۔‘
ڈاکٹر عالیہ رحمان سنہ 2005 میں آسٹریا سے فزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پاکستان واپس آ گئیں۔
سنہ 2008 میں انہوں نے ایم اے او کالج میں ملازمت شروع کی۔ اس وقت ان کے پاس ذاتی گاڑی بھی تھی لیکن وہ صرف دو کلاسز لینے کے لیے کالج آیا کرتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ تب انہیں احساس ہوا کہ صرف دو کلاسز کے لیے پوری گاڑی لے جانا مناسب نہیں ہے۔
'باہر کے ممالک میں خواتین کے لیے سائیکل چلانا کسی حد تک آسان ہوتا ہے لیکن مجھے فکر لاحق تھی کہ پاکستان میں لوگ کیا کہیں گے۔ اس لیے مجھے ہمت نہیں ہو رہی تھی۔‘
’پھر میں نے ایک مقامی گروپ کے ساتھ ہر اتوار کو سائیکلنگ شروع کی، یوں مجھے حوصلہ ملنے لگا۔‘
کالج جانے میں دشواری پیش آتی رہی
کالج جانے کے لیے سائیکل کے استعمال سے پہلے ڈاکٹر عالیہ رحمان کو کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا لیکن ایک دن انہوں نے ہمت کی اور گھر سے کالج تک سائیکل پر سفر کیا۔
انہوں نے سائیکل کے ذریعے پہلی بار گھر سے کالج جانے کا اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا ’ایک دن میں نے سائیکل نکالی اور کالج جانے کی ہمت کی۔ گھر سے کالج گئی اور بڑی آسانی سے واپس بھی آ گئی۔‘
’اس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ چار بجے تو ٹریفک زیادہ ہوتی ہے اور روڈ پر رش بھی ہوتا ہے۔ عام طور پر میں گاڑی میں بریک لگا لگا کر گھر لوٹتی تھی لیکن سائیکل پر میں بڑی آسانی سے ٹریفک سے نکل آئی۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ گاڑی کے مقابلے میں سائیکل پر وقت سے پہلے پہنچیں تھیں۔ تب سے لے کر آج تک وہ آمدورفت کے لیے سائیکل کا استعمال کرتی ہیں۔
گھر کے لیے سودا سلف لانا ہو یا ڈی ایچ اے سے ٹھوکر نیاز بیگ اپنی بہن کے ہاں جانا ہو، وہ سائیکل پر یہ سارا سفر طے کرنا پسند کرتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ کورونا وبا کے دنوں میں ہجوم پر پابندی تھی اور گاڑی میں زیادہ افراد کو ایک ساتھ سفر سے منع کیا جاتا تھا، اس لیے ان دنوں بھی انہوں نے سائیکل کا خوب استعمال کیا۔
انہوں نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ سائیکل چلاتے ہوئے انہیں لوگ دیکھتے ہیں لیکن آج تک ان کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
’مجھے دیکھ کر تو لوگ خوش ہوتے ہیں، خواتین شاباش دیتی ہیں اور بچے دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ہیں۔‘
سائیکل ورزش کا بہترین ذریعہ
کسی بھی انسان کے لیے دن کے ایک حصے میں ورزش کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ مصروفیت کے باعث لوگ ورزش کو وقت نہیں دے پاتے جس کی وجہ سے کئی بیماریاں انسانی جسم میں گھر کر جاتی ہیں۔
ڈاکٹر عالیہ بتاتی ہیں ’سائیکل چلانے کے بعد میں زیادہ فٹ رہتی تھی، مجھے کوئی بیماری نہیں ہوتی تھی، کھانسی زکام جیسی معمولی بیماریاں تو میری سائیکلنگ سے ہی ٹھیک ہوگئیں۔‘
ان کے مطابق ورزش کرنے کے لیے آپ کو ہمت کرنا ہوتی ہے۔ اکثر اوقات آپ کا دل نہیں کر رہا ہوتا ہے جبکہ رننگ کی وجہ سے بعض اوقات گھٹنوں میں درد کا مسلہ بھی پیش آتا ہے۔
انہوں نے بتایا ’میں ہر روز ورزش کرتی ہوں، لیکن سب سے بہترین ورزش سائیکلنگ ہے جس کی بدولت آج تک میرے گھٹنوں پر بوجھ نہیں پڑا۔‘
ان کے مطابق سائیکل چلانا دل کی صحت کے لیے بھی نہایت مفید ہوتا ہے۔
’سائیکلنگ کی بدولت آپ کی دل کی دھڑکن اچھی رہتی ہے اور آپ کے جسم کے ہر حصے میں خون کی ترسیل ہوتی ہے، اس طرح آپ کو دل بھی تندرست رہتا ہے۔‘
ڈاکٹر عالیہ کے مطابق جب وہ سائیکل چلاتی ہیں تو ان کا جسم چست رہتا ہے جبکہ گاڑی چلانے سے وہ سستی اور اکتاہٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔
ڈاکٹر عالیہ رحمان صرف ذاتی تندرستی کے لیے سائیکل نہیں چلاتی بلکہ انہیں لاہور کی فضائی آلودگی کا بھی بخوبی اندازہ ہے اور اس حوالے سے وہ اپنی نجی زندگی میں بھی متحرک رہتی ہیں۔
ان کے مطابق کورونا کے دنوں میں جب سڑکیں ویران ہوئیں تو لاہور میں فضائی آلودگی میں نمایاں کمی ریکارڈ ہوئی تھی۔
’لاہور میں ایئر کوالٹی انڈیکس 430 تک چلا جاتا ہے۔ کورونا کے دنوں میں ہم سائیکل پر جاتے تھے۔ اس وقت میں نے نوٹ کیا تو ہمارے ہاں ایئر کوالٹی انڈیکس 18سے 35 کے لگ بھگ ہوتا تھا۔ لیکن عام دنوں اور بالخصوص سردیوں میں یہ خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے۔‘
ان کے مطابق اگر پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کی بجائے گرین ٹریفک کو ترجیح دی جائے تو لاہور کی فضائی آلودگی میں واضح کمی آسکتی ہے۔
سائیکل خودمختاری اور آزادی کی علامت
ڈاکٹر عالیہ کے مطابق سائیکل چلانا آزادی اور خودمختاری کی علامت ہے۔ سائیکل آپ کو غیرضروری اخراجات سے بھی بچاتی ہے اور آپ کے ذہنی سکون کا باعث بھی ہوتی ہے۔ ان کے مطابق ان کے لیے یہ خوشی کا باعث ہے کہ وہ آزاد اور خودمختار ہیں۔
’مجھے گاڑی کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی پیٹرول ڈلوانا ہوتا ہے۔ جب دل نے چاہا تو کہیں بھی چل دیا۔ سائیکل پر ذرا وقت زیادہ لگتا ہے لیکن آپ ٹائم منیجمنٹ سیکھ جاتے ہیں۔ مجھے جب کہیں جانا ہوتا ہے تو میں وقت سے پہلے نکلتی ہوں کیونکہ سائیکل کا سفر قدرے آہستہ ہوتا ہے اور وقت دیگر ذرائع آمدورفت کے مقابلے میں زیادہ لگ جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر عالیہ رحمان کی دیکھا دیکھی میں ایم اے او کالج کی فیکلٹی ممبران نے بھی سائیکل لینے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ متعدد اساتذہ نے ان سے سائیکل کے متعلق دریافت کیا ہے۔
’کئی اساتذہ نے تو مجھ سے پوچھ کر سائیکل خرید بھی لی ہے۔ میں اپنے طلبہ کو بھی ترغیب دیتی ہوں۔ امید ہے سائیکل پر میرے روز آنے جانے سے باقی فیکلٹی اور طلبہ بھی سائیکل کا استعمال شروع کر کے لاہور کی فضائی آلودگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔‘
سائیکل چلانے کےٹریفک قوانین
مصروف ترین شاہراہوں پر دیگر گاڑیوں کی طرح سائیکل چلانا بھی آسان نہیں ہے۔ خاص طور پر جب آپ روزانہ کی بنیاد پر سائیکل چلاتے ہیں تو آ پ کو کئی ضروری چیزوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عالیہ کے مطابق سائیکل چلانے کے لیے سب سے بنیادی چیز ہیلمٹ ہے، اس کے علاوہ آپ ایلبو گارڈز سمیت گھٹنوں کی حفاظت کے لیے نی گارڈز کا استعمال بھی کر سکتے ہیں اور بارش سے بچنے کے لیے برساتی بھی ساتھ رکھ سکتے ہیں۔
ان سے سائیکلنک کے لیے ٹریفک قوانین اور مخصوص اشاروں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے نہایت خوش اسلوبی اور پیشہ ورانہ طریقے سے سمجھاتے ہوئے بتایا کہ سائیکل کے لیے بھی باقی ٹریفک کے قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ دیگر گاڑیوں کی طرح سائیکل بھی ٹریفک اشارے پر رکتی ہے اور سائیکلسٹ باقاعدہ اشاروں کی مدد سے اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔
انہوں نے چند مخصوص اشاروں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ’سائیکل میں عموماً اشارے نہیں لگے ہوتے، پیچھے والی گاڑی کو اگر آپ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ رفتار کم کر رہے ہیں تو اصول کے مطابق آپ ہاتھ زمین پر دبانے کا اشارہ کرتے ہیں جس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ آہستہ ہو رہے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ رکنے کا اشارہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ بند مٹھی اوپر کی جانب بار بار لہراتے ہیں۔
’یوٹرن کے لیے انگلی کو ہوا میں گمایا جاتا ہے۔ پیچھے گاڑی والے کو آگے گڑھے کی نشاندہی کے لیے انگلی کے ذریعے بار بار نیچے کی جانب اشارہ کیا جاتا ہے۔‘
بیماریوں سے نجات کا سبب
انفرادی طور پر سائیکل چلانے کی بدولت فضائی آلودگی مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکتی البتہ جب یہ تعداد بڑھ جائے گی تو کسی حد تک اس میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
لاہور میں پبلک ٹرانسپورٹ کا رجحان بھی خوش آئند ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ذاتی گاڑیوں کی تعداد حد سے تجاوز کر رہی ہے جس کی وجہ سے صوتی آلودگی سمیت فضائی آلودگی میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر عالیہ رحمان بتاتی ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہر سال بیماریاں پھیلتی ہیں، لوگ مستقل الرجیز کا شکار ہو رہے ہیں۔
ان کے بقول ’دوائیاں کھا کھا کر ہم نے اپنی قوت مدافعت کمزور کر دی ہے، اگر ہم آلودگی کم کرنے کی طرف توجہ دیں تو کئی ڈاکٹر حضرات بے روزگار ہو جائیں گے اور ہم ایک خوبصورت، صحت مند اور طویل زندگی جی سکیں گے۔‘