Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اس خطے کی قسمت کب بدلے گی؟ ماریہ میمن کا کالم

’یورپی یونین کی ایک کرنسی ہے، مشترکہ دفاع ہے نقل و حرکت کی آزادی ہے۔‘ فوٹو: بشکریہ ماریہ میمن
دنیا کا سب سے ترقی یافتہ خطہ یورپ خصوصاً مغربی یورپ ہے۔ یورپی یونین کو دیکھیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ستائیس ممالک مل کر قانون سازی کرتے ہیں اور گنجلک فارن پالیسی اور اندورنی سیاست کےمعاملات کے باوجود مجموعی طور پر خطے کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔
ایک کرنسی ہے، مشترکہ دفاع ہے اور سب سے بڑھ کر آپس میں نقل و حرکت کی آزادی ہے بلکہ باہر سے بھی آپ ایک جگہ سے ویزا لیں اور پھر تمام خطے میں گھومیں۔ اس انتظام کا نتیجہ یہ ہے کہ دو تہائی سے زیادہ سیاح یورپ جاتے ہیں، وہاں پیسہ خرچ کرتے ہیں اور ان کی معیشت کا پہیہ چلتا ہے بلکہ دوڑتا ہے۔ 
سب سے بڑھ کر فیصلہ سازی کسی کرشمے سے کم نہیں۔ ہر ملک کی اپنی پارلیمنٹ بھی ہے مگر اس کے ساتھ یورپی پارلیمنٹ کا بھی ایک فیصلہ ساز ادارہ ہے۔ ہر ملک کے اپنے اپنے شعبوں کے وزرا ہیں اور یورپی یونین کے ہر شعبے میں علیحدہ کمشنر ہیں۔
اس کے باجود ہر وقت اور ہر اہم ایشو پر مشاورت بھی ہوتی ہے اور اتفاق بھی ہوتا ہے۔ اس لیے برسلز والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی اور شفاف جمہوریت ہندوستان میں نہیں بلکہ یورپی یونین میں ہے تو ان سے اتفاق کرنا بنتا ہے۔ 
قانون سازی کا کام اتنا کٹھن اور multilayered ہے کہ اسے سمجھنا ایک دشوار کام ہے لیکن آئیے ہم gsp + کی مثال لے کر اس عمل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔  
اگلے سال یورپین پارلیمنٹ کے الیکشن ہیں اور موجودہ ہاؤس اپنا نامکمل ایجنڈا تیزی سے نمٹاناچاہتا ہے۔ جس میں GSP + سے متعلق نئی قانون سازی بھی شامل ہے۔ یورپی کونسل اور یورپی پارلیمنٹ میں نئی قانون سازی کو migrant crisis سے لنک کرنے پر اختلاف رائے ہے۔
یورپین کونسل قانون سازی میں پناہ گزینوں کے بحران کے معاملے پر سخت شقیں شامل کرنا چاہتی ہے جبکہ یورپین پارلیمنٹ اس معاملے میں آسان پالیسی کی قائل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر ملک کی اپنی پالیسی بھی ہے مگر اس سب کے باوجود وہ اس مسئلے پر بھی ایک مشترکہ حکمت عملی بنا لیں گے۔
جی ایس پی کے معاملے کو جہاں پاکستان میں فارن پالیسی کے لینز سے دیکھا جاتا ہے وہاں اس معاملے پر یورپ کی داخلی سیاست کے اہم پہلو کو ہم نظر انداز کرتے ہیں اور خصوصاً ان پہلوؤں کو بھی جن کا تعلق انسانی حقوق اور ان سے جڑے معاملات سے ہوتا ہے۔ ان سب متنوع محرکات کے باوجود ایک مشترکہ پالیسی بنی ہے۔ اس طرح نہیں کہ کچھ افراد کچھ دن کے اندر ہی فیصلہ کر لیں۔

’ستائیس ممالک مل کر قانون سازی کرتے ہیں اور گنجلک فارن پالیسی اور اندورنی سیاست کےمعاملات کے باوجود خطے کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔‘ فوٹو: بشکریہ ماریہ میمن

ایسا بھی نہیں کہ وہاں مفادات پیش نظر نہیں ہوتے مگر ان مفادات کو پیش نظر رکھ کے ہی حکمت عملی بنتی ہے۔ وہاں پر بھی بتدریج دائیں اور بائیں بازو کے درمیان ایک فطری کشمکش رہتی ہے۔
سپین سمیت یورپ کے متعدد ممالک میں نئے الیکشنز کے بعد اس بات کا خدشہ ہے کہ وہاں قدامت پسند حکومتوں کا قیام ہوگا جو براہ راست یورپ کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوں گی۔ ممکن ہے کہ اگلے سال یورپین پارلیمنٹ میں دائیں بازو کے خیالات کے حامل ارکان کے آنے کے بعد gsp + سے متعلق شرائط مزید کڑی ہوجائیں۔  
اگر سچ پوچھیں تو یورپین پارلیمنٹ کے مطالعاتی دورے کے بعد ایک عجیب سی envy محسوس ہو رہی ہے۔ ایک شدید sense of loss کا احساس بھی ہوتا ہے کیونکہ اگر اپنے خطے کی طرف آئیں تو تاریخ اور جغرافیے کا دباوٴ ایسا سخت ہے کہ اس گنجلک سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔  
اس کے باوجود اب روایتی منقسم مسائل کے ساتھ نئے نئے مشترکہ مسائل بھی پیدا ہو چکے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کو موسمیاتی تبدیلی جیسے عفریت کا سامنا ہے اور ایسے وقت میں اپنے وسائل کو اکھٹے استعمال کرنے کے بجائے کشیدگی بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں۔
جب گلیشییر تیزی سے پگھل جائیں گے تو سیاچن کے محاذ کا کیا ہو گا؟ اس وقت اس تنازعے کی کیا وقعت رہ جائے گی جب دونوں طرف زندگی کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا؟ مقبول اردو مصرعے کے مطابق ’چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔‘

یورپین کونسل قانون سازی میں پناہ گزینوں کے معالے پر سخت شقیں شامل کرنا چاہتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

دہلی اور لاہور دونوں کو سالانہ سموگ کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے بعد ہفتوں زندگی مفلوج ہو جاتی ہے۔ واہگہ بارڈر پر روزانہ کی علامتی جارحانہ تقریب کے ساتھ ساتھ اگر سموگ پر اجتماعی حکمت عملی اپنا لی جائے تو اس میں دونوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اب پرانی وبائیں بشمول ٹدی دل بھی پھر سامنے آ رہی ہیں جن سے نمٹنا اب صرف اپنی سرحدوں کے اندر ممکن نہیں رہا۔   
یورپ یہ سب کچھ بلکہ اس سے زیادہ دیکھ چکا ہے۔ جرمنی اور فرانس میں شدید ترین جنگوں کے بعد سیانوں نے سوچا کہ اس خطے کے مستقبل کی ضمانت اسی میں ہے کو دونوں کو تجارت کے ایک ایسے بندھن میں سختی سے باندھ دیا جائےکہ دوبارہ بارود کی بو نہ آئے۔
ہمارے ہاں تجارت اور رابطے کا ذکر بھی ہو تو فوراً حکومت بیک فٹ پر چلی جاتی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس وقت بھارت کی حکومت کا اعلانیہ غرور اور بغض کسی بھی سنجیدہ کوشش کی راہ میں رکاوٹ ہے مگر اس میں دونوں طرف کے سنجیدہ اور دیگر غیر جانبدار حلقوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے۔ ایسا نہیں کہ پلک جھپکنے میں ہی سب اچھا ہو جائے مگر یورپ کی مثال اس لیے اہم ہے کہ انسانی سوچ اور کوشش کس طرح اختلافات پرقابو پا سکتی ہے۔ اس لیے کہیں سے آغاز تو ہو۔

شیئر: