حکمران اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام ف نے نگران حکومت کے اختیارات میں مجوزہ اضافے سے متعلق ترمیم سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا ہے جبکہ اپوزیشن جماعت تحریک انصاف نے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔
منگل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام ف کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی نے ان مجوذہ ترامیم پر تحفظات کا اظہاتر کیا ہے۔
مزید پڑھیں
پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’مجھے اس بل پر شدید تحفظات ہیں۔‘ جواب میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا ہے۔ بین الاقوامی معاہدوں کی صورت میں ہم تین ماہ کے لیے ملکی نظام کو بند نہیں کر سکتے۔‘
حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام ف کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جس طرح ترمیم 230 لائی جا رہی تھی، اس نے تو بہت سے سوال اٹھا دیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ایک شخص کا نام نگران وزیراعظم کے لیے گردش کرنے لگا۔ ایسا لگا جیسے یہ 90 روز کے لیے نہیں پھر 9 ماہ اور 9 سال تک معاملے جانے کے خدشات پیدا ہو گئے۔‘
’اس حوالے سے تحریک انصاف کے بیرسٹر علی ظفر کی سربراہی میں الیکشن ایکٹ کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں خوش اسلوبی سے بحث کی گئی۔ جو کچھ اس کمیٹی میں فیصلے ہوئے ہیں وہی آرٹیکل یہاں پیش ہوں گے۔‘
’میں نے سینیٹر مشتاق سے بھی کہا تھا کہ اچھی ترامیم آئیں گی۔ سیکشن 230 میں جیسی ترامیم آئی ہیں، اس سے غصہ بھی آیا اور افسوس بھی ہوا۔‘
’نگران سیٹ اپ غیرجانبدار ہوتا ہے تاکہ کسی کو شک نہ رہے۔ نگران سیٹ کو ملک چلانے کی اجازت نہیں ہوتی وہ صرف الیکشن تک حکومت ہولڈ کرتے ہیں۔‘
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ’اس ترمیم میں کہا گیا گیا ہے کہ وہ ہر قسم کے فیصلے کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی بھی بل پارلیمنٹ میں آئے، اسے ممبران کو بھجوایا جائے۔ ہم مختلف ملکوں کے سفراء نہیں بلکہ اس ایوان کے منتخب نمائندے ہیں۔ یہ انڈر دی کارپٹ نکلنے لگا تھا جس کی نشاندہی کی گئی۔‘
پیپلز پارٹی کا بھی تحفظات کا اظہار
پیپلز پارٹی کے رضا ربانی نے کہا کہ مجھے اس پر شدید تحفظات ہیں۔ ’اگر ایسا ہوا تو یہ جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ہو گا۔‘
پیپلز پارٹی سے ہی تعلق رکھنے والے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ’میں ایک منٹ کے لیے بھی کمیٹی سے باہر نہیں گیا۔ سیکشن 230 میں ترمیم کمیٹی میں زیر بحث نہیں آئی۔‘
اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے وزیر قانون بیرسٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’سینیٹر علی ظفر سفر پر جا رہے تھے، ہم نے کچھ ایجنڈا مزید چلانا تھا۔ ہم نے صرف یہ کہا شیڈول آنے تک تبادلے ہو سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’صرف جاری رہنے والی چیزوں کو آگے بڑھتے رہنا چاہیے کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا ہے۔ بین الاقوامی معاہدوں کی صورت میں ہم تین ماہ کے لیے ملکی نظام کو بند نہیں کر سکتے۔‘
انتخابی اصلاحات سے متعلق ترامیم کل تک مؤخر
حکومت نے انتخابی اصلاحات کے تحت الیکشن ایکٹ 2017 میں کی جانے والی ترامیم کے لیے نیا بل لانے کے بجائے انہیں مشترکہ اجلاس میں پہلے سے زیر التوا بل میں ترمیم کے ذریعے شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
منگل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ بل اور اس میں کی جانے والی ترامیم ایجنڈے کا حصہ تھیں لیکن قواعد کے تحت ترامیم ایوان میں پیش کرنے سے 24 گھنٹے قبل ارکان کو آگاہ نہ کرنے کی وجہ سے بل کل تک مؤخر کر دیے گئے۔
