Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افواہ: لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتی ’سوشل میڈیا کی اندھی طاقت‘

افواہ ہمارے معاشرے میں سوشل میڈیا کے کردار پر فکر انگیز انداز میں روشنی ڈالتی ہے (فوٹو: نیٹ فلیکس)
مجھے ایک دن واٹس ایپ پر ایک دوست کی طرف سے پیغام موصول ہوا جو مسٹر بین کا کردار نبھانے والے برطانوی اداکار روون ایٹکنسن کے بارے میں تھا کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ مجھے بہت افسوس ہوا کیونکہ بچپن ہی سے یہ میرا پسندیدہ کردار رہا ہے۔ دو تین اور لوگوں کی جانب سے بھی ایسا ہی میسج موصول ہوا۔
جب میں بھی یہ میسیج اپنے دوسرے دوستوں کو فارورڈ کرنے لگا تو مجھے خیال آیا کہ ایک بار تصدیق کر لینی چاہیے۔ انگریزی اخباروں کے شوبز میگزین کھنگالے تو معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی ہے لیکن کئی لوگوں کی طرف سے دو تین مہینوں تک وہ پیغام موصول ہوتا رہا کیوں کہ لوگوں کی بڑی تعداد انٹرنیٹ پر موجود ہر خبر کو سچ مان لیتی ہے۔
’افواہ‘ موجودہ دور کی ایک قابلِ ذکر فلم ہے جو ہمارے معاشرے میں سوشل میڈیا کے کردار پر فکر انگیز انداز میں روشنی ڈالتی ہے۔ اس فلم کی کہانی آج کل کے دور کی تلخ حقیقتوں کی آئینہ دار ہے اور سوشل میڈیا پر افواہوں کے خطرناک حد تک بڑھتے رجحان کی شاندار عکاسی کرتی ہے۔
ہدایت کار سدھیر مشرا نے یہ فلم بنا کر ایک بڑا قدم اس مسئلے کو اُجاگر کرنے کی طرف اٹھایا ہے کہ ہاتھ میں پکڑے موبائل پر دیکھی جانے والی ہر خبر سچی نہیں ہوتی۔ انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ سوشل میڈیا پر ’پروپیگنڈہ‘ کیسے چالاکی سے پھیلا کر عوام کی ہمدردیاں سمیٹی جا سکتی ہیں اور اسی طرح لمحے بھر میں نفرت انگیز مواد پھیلا کر کیسے کسی ایک آدمی کے ہزاروں جانی دشمن کیسے پیدا کیے جاتے ہیں۔
فلم کے مرکزی کردار نواز الدین صدیقی (رحاب احمد) اور بھومی پڈنیکر (نی وی) نے ادا کیے ہیں جب کہ معاون کرداروں میں سمیت ویاس ( وکی بنا) اور شارب ہاشمی (چندن سنگھ) نے بہترین اداکاری کی ہے۔
آج کل شتقریباً ہر فلم اور سیزن راجستھان میں فلم بند کیا جا رہا ہے۔ اس فلم کی زیادہ تر شوٹنگ بھی اودے پور میں کی گئی ہے۔
کہانی وکی بنا کے ایک سیاسی جلسے سے شروع ہوتی ہے جس میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے اور کچھ لوگ مارے جاتے ہیں۔ الزام اسی پارٹی کے کارکن چندن سنگھ پر لگایا جاتا ہے جس کی ویڈیو کچھ ہی لمحوں میں وائرل ہو جاتی ہے اور وہ روپوش ہو جاتے ہیں۔
اس وجہ سے وکی بنا کا اپنی منگیتر اور نی وی سے جھگڑا ہو جاتا ہے اور وہ گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہیں۔ وکی بنا کی پارٹی کے غنڈے جب نی وی کو ڈھونڈ کر زبردستی واپس لے جانا چاہتے ہیں تو وہاں سے رحاب احمد کا گزرنا ہوتا ہے اور وہ نی وی کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔
یہی وہ لمحہ ہے جب کہانی خطرناک موڑ لیتی ہے، حالات اتنے پیچیدہ ہو جاتے ہیں کہ رحاب اور نی وی کو ایک ساتھ بھاگنا پڑتا ہے۔ وکی بنا سوشل میڈیا پر ’جوڑ توڑ‘ کرنے والی ٹیم بناتا ہے جو اس معاملے کو مذہبی رنگ دے دیتی ہے۔
انڈین سوشل میڈیا پر اس فلم کے ہدایت کار سدھیر مشرا پر بھرپور تنقید کی جا رہی ہے کہ انھوں نے اس فلم میں مسلمانوں کو مظلوم اور ہندوؤں کو ظالم دکھایا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ انھوں نے کشمیر فائلز اور کیرالہ سٹوری جیسی فلموں سے انڈیا کے خراب ہوتے سیکیولرازم کے تصور کو سنبھالا دیا ہے۔ 
اس فلم کے پیچھے بالی ووڈ کے بڑے دماغوں نے کام کیا ہے جن میں قابلِ ذکر نام ہنسل مہتا، انوبھوو سنہا ( پروڈیوسر)، کیتن مہتا اور انوراگ کشیپ کے ہیں۔ فلم شروع ہونے سے پہلے ایک خصوصی نوٹ کے ذریعے ان سب کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔ یہ سب نام بالی وڈ کے کمرشل سینما سے شاذ و نادر ہی منسلک رہتے ہیں کیوں کہ یہ سب لوگ خالصتاً مضبوط کہانی اور سکرپٹ کی تلاش میں رہتے ہیں۔
اس فلم کا پیغام انتہائی حقیقت پسندانہ ہے کہ کیسے سوشل میڈیا پر غلط معلومات کا ایک ٹکڑا تیزی سے وائرل ہونے کے بعد لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کر سکتا ہے اور معاشرے میں اختلاف کا بیج بو سکتا ہے۔
آئی ایم ڈی بی پر اس فلم کی ریٹنگ 10 میں سے 4۔5 ہے جبکہ ٹائمز آف انڈیا اسے 5 میں سے 5۔3 نمبر دیتا ہے۔ سماجی مسائل اجاگر کرتی فلموں کی ریٹنگ ایسی ہی ہوتی ہے کیونکہ کمرشل فلمیں دیکھنے کا رجحان ہمارے یہاں زیادہ پایا جاتا ہے۔
میری رائے میں اس فلم کا پیغام اتنا طاقتور اور بر وقت ہے جس کی اہمیت کا اندازہ اس کی ریٹنگ سے نہیں لگانا چاہیے۔ جس کے بھی موبائل میں کوئی سوشل میڈیا ایپ موجود ہے یہ فلم اس کے لیے ہے یعنی یہ فلم ہم سب کے لیے ہے۔

شیئر: