اینکرز اور صحافیوں کی مخالفت، حکومت نے پیمرا ترمیمی بل واپس لے لیا
بل کے تحت جہاں چینلز پر مِس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کو روکنے کے حوالے سے شقیں شامل کی گئی تھیں (فوٹو: اے ایف پی)
وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے پیمرا (ترمیمی) بل 2023 واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ بل کے حوالے سے جتنی ترامیم آ گئی ہیں دو دن میں ان کی منظوری ممکن نہیں ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس کنوینیر فوزیہ ارشد کی صدارت منعقد ہوا جس میں وزیر اطلاعات نے یہ بل واپس لینے کا اعلان کیا۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ’پیمرا کے پرانے سیاہ قانون کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ مخلصانہ سوچ اور بڑی محنت سے یہ بل تیار کیا تھا، تاہم بعض شقوں کے حوالے سے سامنے آنے والے تحفظات کا احترام کرتے ہیں اور ایسا کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے جس سے یہ تاثر پیدا ہو کہ ہمیں میڈیا کی آزادی عزیز نہیں۔‘
مریم اورنگزیب نے کہا کہ ’میڈیا کی نمائندہ تنظیمیں اور تمام سٹیک ہولڈرز پہلے دن سے مشاورت اور بل کی تیاری کا حصہ رہے۔ پہلے دن سے یہی کہا تھا کہ متفقہ طور پر ہی بل منظور کرائیں گے۔ بل میں ادھر چھوڑ کر جا رہی ہوں جو حکومت بھی آئے گی وہ بل پر بحث کرلے۔‘
اجلاس میں شریک افراد نے کھڑے ہو کر بل کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ صدر اے پی این ایس سرمد علی نے کہا کہ ’بل کی ایک ایک شق پر مشاورت ہوئی، ہم اس بل کی حمایت کرتے ہیں۔‘
میر ابراہیم نے کہا کہ ’پیمرا (ترمیمی) بل 2023ء صحافیوں کے لیے اہم بل ہے اسے کسی طور بھی نہیں روکنا چاہیے۔‘
افضل بٹ نے کہا کہ مالکان صحافیوں کو تنخواہیں ادا نہیں کرتے، یہ بل صحافیوں کی سپورٹ کے لیے ہے اسے واپس نہ لیا جائے۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز کمیٹی کے اجلاس میں اینکرز کی جانب سے اس بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کو آزادی اظہار پر پابندی کا بل قرار دیا تھا۔
بل کے تحت جہاں چینلز پر مِس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کو روکنے کے حوالے سے شقیں شامل کی گئی تھیں وہیں صحافیوں کی کم از کم تنخواہ کا تقرر اور عدم ادائیگی پر پیمرا کو کارروائی کا اختیار بھی تجویز کیا گیا تھا۔
بل واپس لینے کے بعد مریم اورنگزیب صحافیوں سے گفتگو میں آبدیدہ ہو گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جب آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت شقیں قانون کا حصہ بنا لیں تھیں اس کے باوجود اسے کالا قانون کہا گیا۔ ہمیں ان تجاویز کا احترام ہے، لیکن وقت کم ہونے کی وجہ سے ان کی منظوری ممکن نہیں اس لیے بل واپس لینا بہتر سمجھا ہے۔‘
پارلیمانی رپورٹرز کی نمائندہ تنظیم پارلیمنٹری رپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر اے) نے بل واپس لینے کے فیصلے کے خلاف سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں سے احتجاجاً واک آؤٹ کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسری جانب گذشتہ روز کراچی پریس کلب میں صحافی تنظیموں کے ایک اجلاس میں پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے ’صحافت پر قدغن لگانے اور صحافیوں کی آواز کو دبانے کے لیے‘ متعارف کیے گئے پیمرا ترمیمی بل 2023 کے مسودہ پرغوروخوص کے بعد اسے یکسر مسترد کردیا گیا تھا۔
اجلاس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ حکومت اس کے بجائے سپریم کورٹ کے قائم کردہ دو رکنی میڈیا کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں پیمرا کی تشکیل نو کرکے اس کو ایک آزاد اور بااختیار ادارہ بنائے۔ اجلاس میں پریس کلب کے عہدیداروں کے علاوہ پی ایف یو جی کے تمام دھڑوں کے یوجیز کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔