Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نو خان، نو ٹی وی،‘ پی ٹی آئی میڈیا کے بائیکاٹ کی مہم کیوں چلا رہی ہے؟

پیمرا کے ہدایت نامے میں عمران خان کا نام تو نہیں لیکن 9 مئی کے واقعات کا حوالہ ضرور دیا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان میں بدھ کی رات کو الیکٹرانک میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پیمرا کا ٹی وی چینلز کو بھیجا گیا ایک ہدایت نامہ منظر عام پر آیا جس میں کہا گیا کہ ’ریاست مخالف جذبات کو فروغ دینے اور وفاقِ پاکستان اور ریاستی اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کرنے‘ جیسی سرگرمیوں کی نہ صرف مذمت کی جانی چاہیے بلکہ ایسے افراد کا میڈیا پر ’بائیکاٹ‘ بھی کیا جانا چاہیے۔
ہدایت نامے میں سابق وزیراعظم عمران خان کا نام تو نہیں لکھا گیا تاہم مئی 9 کے واقعات کا حوالہ دیے جانے پر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ احکامات عمران خان اور ان کی جماعت کے دیگر رہنماؤں کے لیے ہی جاری کیے گئے ہیں۔
پیمرا کے ہدایت نامے کے جواب میں عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سوشل میڈیا پر ایک مہم شروع کر رکھی ہے جس کا مقصد شاید یہ بتانا ہے کہ ان لیڈر کو اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے میڈیا کی ضرورت نہیں اور عمران خان کو میڈیا پر دکھانے کی صورت میں ٹی وی چینلز کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔
پی ٹی آئی کی جانب سے چلایا جانے والا’نو خان، نو ٹی وی‘ ٹرینڈ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے۔
پارٹی کی جانب سے صارفین کو بتایا گیا کہ ’پی ڈی ایم کو حکومت نے میڈیا پر عمران خان پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے ہمارے یوٹیوب چینلز کو فالو کریں عمران خان کی تقاریر کے حوالے سے اپ ڈیٹ رہیں۔‘
پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے رکن جبران الیاس نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’عمران خان کا نام لینے پر جو پابندی لگائی ہے میڈیا پر اس کا سب سے زیادہ نقصان تو پی ڈی ایم کو ہوگا۔ اب شاید میڈیا والے معیشت اور عوام کے مسائل کی بات کریں۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’لوگ ویسے ہی ٹی وی کم دیکھتے تھے، اب شاید بالکل ہی نہ دیکھیں۔‘
پی ٹی آئی سے منسلک ایک اور شخصیت سارہ تاثیر نے لکھا کہ ’یہ یاد دہانی ان کے لیے ہے جنہوں عمران خان پر میڈیا اور ٹی وی پر پابندی عائد کی ہے کہ ہم پہلے ہی سوشل میڈیا پر آ چکے ہیں۔‘
وکیل منیب قادر نے لکھا کہ ’پچھلے ہفتے میں ایک ٹی وی شو پر تھا جہاں اینکر نے مجھ سے عمران خان سے متعلق سوال کیے لیکن ان کا نام لیے بغیر۔ ان کا ذکر پی ٹی آئی چیئرمین کے نام سے کیا جا رہا تھا۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ عمران خان کا ٹی وی شوز پر نام لینا بھی قابل قبول نہیں ہوگا۔‘
فراز نامی صارف نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’پیمرا کی پابندی اس طرف اشارہ ہے کہ عمران خان کو سیاست سے مائنس کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔‘
ان کے خیال میں پی ٹی آئی کے شہری علاقوں میں رہنے والے کچھ حامی شاید مذہبی جماعتوں کی طرف جائیں لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) یا پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی طرف کوئی نہیں جائے گا۔‘
عمران خان پر لگائی جانے والی پابندی پر حکومت کی جانب سے کوئی واضح مؤقف سامنے نہیں آیا ہے لیکن پیمرا کی جانب سے 9 مئی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ’یہ سب کچھ ریاست اور اس سے منسلک اداروں کو نقصان پہنچانے کے مذموم مقاصد کے تحت کیا گیا ہے۔
پیمرا نے ٹی وی چینلز کو یاد دہانی کرائی ہے کہ ایسی تمام سرگرمیوں کو نشر کرنا ملک کے قوانین کے خلاف ہیں اور ٹی وی چینلز کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ ’نظر رکھیں اور کسی بھی نفرت پھیلانے والے، اس کے ذمہ داران اور سہولت کاروں کو فروغ نہ دیں۔

شیئر: