Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کو اٹک جیل منتقل کرنے کا فیصلہ کس کا تھا؟ اسلام آباد ہائی کورٹ

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عدالتی آرڈرز کے باوجود چیئرمین پی ٹی آئی سے نہیں ملنے نہیں دیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے پوچھا ہے کہ عمران خان کو کیوں اڈیالہ کی بجائے اٹک جیل میں رکھا گیا ہے۔
جمعے کو پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی اٹک سے اڈیالہ جیل منتقلی سے متعلق درخواست کی سماعت چیف جسٹس عامر فاروق کر رہے ہیں۔
اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب راؤ شوکت اور سابق وزیراعظم کے وکیل شیر افضل مروت عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب راؤ شوکت سے سوال کیا کہ اڈیالہ جیل سے اٹک جیل منتقلی کا فیصلہ کس کا تھا؟
جس پر ایڈووکیٹ جنرل عدالت کے سامنے پنجاب حکومت کی جانب سے جیل منتقلی کا لیٹر پیش کیا۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عدالتی آرڈرز کے باوجود ان کو چیئرمین پی ٹی آئی سے نہیں ملنے نہیں دیا گیا۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے پوچھا کہ کیا صرف وکالت نامے دستخط کرانے کے لیے وکیل اپنے کلائنٹ سے جیل میں مل سکتا ہے۔
وکیل پنجاب نے کہا کہ ’سات اگست کو ہم نے ملنے کی اجازت دی آٹھ اور نو اگست کو یہ دیر سے پہنچے۔ اگر سپرنٹنڈنٹ اجازت دے تو روزانہ بھی جیل میں ملاقات ہو سکتی ہے۔‘
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقاتوں پر بھی تذلیل کی جا رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’چیئرمین پی ٹی آئی ایک بڑی پارٹی کے لیڈر ہیں سابق وزیر اعظم ہیں اور ساتھ ہی سزا یافتہ ہیں۔‘
وکیل پنجاب کا کہنا تھا کہ ’اگر عدالت ہفتے میں ایک یا دو دن رکھ دے اور وقت مقرر کر دے تو ٹھیک ہے۔‘
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ’کل انہوں نے بشری بی بی کی ملاقات کرائی پھر مجھے کہا ایک دن میں ایک ملاقات ہو سکتی ہے۔‘
عمران خان کو سہولتوں سے متعلق وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے لیے ہم نے کھانے کے لیے الگ سے کک رکھا ہوا ہے الگ برتن رکھے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ ہفتے میں اگر دو تین بار ملنا ہو تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔

شیئر: