Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی شہری جنہوں نے اپنی جان دے کر کینیڈا میں خواتین کو ڈوبنے سے بچایا

رضا عزیز دو ماہ قبل ہی اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ کینیڈا منتقل ہوئے تھے (فوٹو: اُردو نیوز)
یہ عام دنوں کی طرح کا ایک دن تھا۔ کینیڈا کے شہر سیسکاٹون کی ڈوئفن بیکر جھیل پر بہت سے افراد جمع تھے۔ کچھ پکنک منا رہے تھے اور کچھ جھیل میں کشتی رانی کر رہے تھے کہ اچانک جھیل میں ایک کشتی ڈولنے لگی جس میں تین خواتین سوار تھیں۔
چھ اگست کا یہ دن رضا عزیز کے لیے غیرمعمولی ہونے والا تھا جو کچھ عرصہ قبل ہی اپنے خاندان کے ساتھ کینیڈا آئے تھے۔
انہوں نے جب یہ دیکھا کہ یہ خواتین کسی بھی وقت پانی کی لہروں کی نذر ہو سکتی ہیں تو انہوں نے بےخوف ہو کر جھیل میں چھلانگ لگا دی۔
وہ ان تینوں خواتین کو ڈوبنے سے بچانے میں کامیاب رہے مگر پانی کی لہروں نے ان پہ رحم نہ کھایا اور انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر ایک ایسی مثال قائم کی کہ کینیڈا بھر میں رضا عزیز کی جرأت و بہادری کے گُن گائے جا رہے ہیں۔
رضا عزیز کی اس بہادری کے چرچے سوشل میڈیا پر بھی ہوئے تاہم، کینیڈین عوام کی حیرت میں اس وقت اضافہ ہوا جب انہیں پتہ چلا کہ اپنی جان پر کھیل کر تین کینیڈین خواتین کی جان بچانے والے اس نوجوان کا آبائی ملک پاکستان ہے۔
رضا عزیز کا تعلق پشاور سے تھا اور وہ دو ماہ قبل ہی اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ کینیڈا منتقل ہوئے تھے۔
 ان کے چھوٹے بھائی احمد عزیز نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’وہ اپنے بہتر مستقبل کے لیے بیرونِ ملک منتقل ہوئے تھے مگر کیا خبر تھی کہ موت کا فرشتہ ان کے سر پہ منڈلا رہا ہے۔‘ 

رضا عزیز کے بھائی احمد عزیز نے بتایا کہ ’وہ اپنے بہتر مستقبل کے لیے بیرونِ ملک منتقل ہوئے تھے‘ (فوٹو: اُردو نیوز)

انہوں نے بتایا کہ ’میرے بھائی نے اپنی جان پر کھیل کر تین کینیڈین خواتین کی جان بچائی مگر خود جھاڑیوں میں پھنس گئے اور پوری کوشش کے باوجود بھی پانی سے نہ نکل سکے۔ اُن کی لاش دو روز بعد جھیل سے نکالی گئی۔‘
’رضا عزیز کوئی ماہر تیراک نہ تھے مگر جب انہوں نے خواتین کو پانی میں ڈوبتے اور مدد کے لیے  پکارتے دیکھا تو ان سے رہا نہ گیا اور انہوں نے آئو دیکھا نہ تاؤ اور پانی میں چھلانگ لگا دی۔‘
رضا عزیز کے بھائی احمد عزیز نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کے بھائی کو کینیڈا میں مستقل رہائش کی اجازت ملی تھی اور کچھ ماہ کے بعد انہیں شہریت بھی مل جاتی۔‘
’میرے خاندان کا کینیڈین حکومت سے اب یہ مطالبہ ہے کہ رضا کو ریاستی ایوارڈ سے نوازا جائے جیسا کہ کینیڈا کی حکومت اپنے قومی ہیروز کو دیا کرتی ہے۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’رضا عزیز نے اپنی جان پر کھیل پاکستان کا نام روشن کیا ہے لہٰذا ان کو پاکستان میں بھی سول ایوارڈ کے لیے نامزد کیا جائے۔‘
رضا کے بھائی نے بتایا کہ رضا عزیز کی آج جمعے کو نماز جنازہ پڑھانے کے بعد کینیڈا کے شہر سسیکاٹون میں ہی تدفین کی جائے گی۔

کینیڈین پولیس نے واقعے کو حادثہ قرار دیا ہے اور رضا عزیز کا پوسٹ مارٹم کیے بغیر ہی لاش لواحقین کے حوالے کر دی ہے (فوٹو: اُردو نیوز)

رضا عزیز کے ہم جماعت محمد قاسم نے اُن کی یادیں اُردو نیوز کے ساتھ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’رضا کالج کے وقت سے ہی نڈر تھے۔ وہ ہمیشہ دوسروں کے دکھ درد میں ان کی مدد کیا کرتا تھے۔ رضا عزیز زندگی کے حقیقی مفہوم سے واقف تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ’کینیڈا جانے سے قبل انہوں نے تمام دوستوں سے ملاقات کی۔ وہ بہت خوش تھے کہ کینیڈا میں نئی زندگی شروع کروں گا مگر آج یقین نہیں آتا کہ وہ ہم میں موجود نہیں ہیں۔‘
دوسری جانب پاکستانی نژاد کینڈین شہری رضا عزیز کی موت پر افسوس کرنے کے علاوہ ان کی بہادری پر خراج تحسین بھی پیش کر رہے ہیں۔
کینیڈین پولیس نے اس واقعے کی تفتیش کر کے اسے حادثہ قرار دیا ہے اور نوجوان رضا عزیز کا پوسٹ مارٹم کیے بغیر ہی لاش لواحقین کے حوالے کر دی ہے۔

شیئر: