محمد عبداللہ کینیڈا تو نہ جا سکے مگر فیس واپسی سے مالامال کیسے ہوئے؟
محمد عبداللہ کینیڈا تو نہ جا سکے مگر فیس واپسی سے مالامال کیسے ہوئے؟
منگل 8 اگست 2023 13:56
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
محمد عبداللہ کا کینیڈا کا سٹڈی ویزا دو مرتبہ مسترد ہوا (فوٹو: کینیڈا گائیڈ)
محمد عبداللہ نے مکینیکل انجینیئرنگ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کینیڈا سے مزید تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور جولائی 2022 میں کینیڈا کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے 17 لاکھ روپے فیس بھی جمع کروا دی۔
محمد عبداللہ کا کینیڈا جانے کا خواب تو پورا نہ ہوسکا تاہم گذشتہ دنوں یونیورسٹی کی جانب سے ان کو 22 لاکھ 51 ہزار روپے واپس کیے گئے۔ یوں ان کو پانچ لاکھ روپے کا فائدہ ہوا۔
صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے محمد عبداللہ نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بیچلرز کیے ہوئے ان کو طویل عرصہ ہوگیا ہے اس لیے اب انہوں نے ماسٹرز کی تعلیم حاصل کرنے لیے کینیڈا کا انتخاب کیا۔
وہ ان دنوں ایک نجی کمپنی میں اسسٹنٹ انجینیئر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے اُردو نیوز کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’جولائی 2022 میں 17 لاکھ پاکستانی روپے فیس کینیڈا کی ایک یونیورسٹی میں جمع کروائی۔ اس کے بعد میں نے اکتوبر 2022 میں ویزا کے لیے درخواست جمع کروائی اور باقی کوائف پورے کرنے میں مصروف ہو گیا، تاہم رواں سال مارچ میں میرا پہلا ویزا مسترد ہوگیا۔‘
محمد عبد اللہ کے بقول انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور ایک بار پھر کینیڈا کے ویزا کے لیے درخواست جمع کروا دی۔ اس دوران اُن کے کاغذات اور 17 لاکھ روپے کینیڈا کی یونیورسٹی میں محفوظ تھے۔
انہوں نے اردو نیوز کو دوسرے ویزے کے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ دوسری بار میں نے 28 جون 2023 میں ویزا کے لیے درخواست جمع کروائی، تاہم سات جولائی کو میرا ویزا دوسری بار بھی مسترد ہوگیا۔‘
انہوں نے کینیڈا کا ویزا دو بار مسترد ہونے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب ویزا ریجیکٹ ہوتا ہے تو گویا آپ کے پروفائل پر ایک دھبہ سا لگ جاتا ہے۔‘
محمد عبداللہ کے مطابق ’میرا ویزا دو بار مسترد ہوا جب کہ میں نے کینیڈا میں داخلہ فارم اور فیس جمع کروا دی تھی۔ مجھے فکر لاحق ہوئی کہ دو بار ویزا مسترد ہونے کے بعد اب مزید اُمید باقی نہیں رکھنی چاہیے، لہٰذا میں نے داخلہ فیس واپس لینے کا فیصلہ کیا۔‘
انہوں نے اردو نیوز کو بیرون مُلک رقم بھیجنے اور واپس رقم کے حصول کے طریقۂ کار کے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان سے داخلہ فیس تھرڈ پارٹی سورس کے ذریعے بھیجی جاتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میں نے ایک نجی وائر لائن کے ذریعے کینیڈا کی یونیورسٹی میں فیس جمع کرائی تھی۔ فلائی وائر کی جانب سے ریفرنس نمبر کے ساتھ ایک رسید دی جاتی ہے جو پاکستان میں بینک آپریشن منیجر کو دے دیا جاتا ہے۔‘
عبداللہ نے جب پاکستان میں اپنے بینک سے رابطہ کیا تو ان کو کینیڈین ڈالر کی نئی قیمت کے حساب سے ری فنڈ ملا (فوٹو: کارلٹن)
ان کے بقول ’اس کے بعد بینک اور یونیورسٹی آپس میں باقی معاملات طے کرتے ہیں۔ میں نے بھی اِسی طریقے کے تحت اپنی فیس جمع کروائی تھی۔ داخلہ منسوخ ہونے کے بعد انہوں نے یونیورسٹی میں فیس واپسی (ری فنڈ) کی درخواست دی۔ میری داخلہ فیس وہاں میرے سیونگ اکاؤنٹ میں محفوظ تھی۔‘
ان کے مطابق ’یہ رقم یونیورسٹی تب ہی استعمال میں لاسکتی تھی جب ان کا ویزا لگ جاتا اور وہ وہاں خود کو رجسٹر کر کے پڑھائی کا آغاز کرتے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے ساڑھے 10 ہزار کینیڈین ڈالرز خریدے تھے۔ اُس وقت کینیڈین ڈالر کی قیمت 162 پاکستانی روپے تھی۔ میں نے جب کینیڈا میں اپنی یونیورسٹی سے ری فنڈ مانگا تو انہوں نے میری فیس (ساڑھے 10 ہزار) میرے وائر لائن اکاؤنٹ میں منتقل کر دی۔‘
محمد عبد اللہ بتاتے ہیں کہ ان کو اِس بات کا اندازہ تھا کہ حالیہ کچھ عرصہ کے دوران ڈالر کی قیمت بڑھ گئی ہے جس کی بدولت اُن کو نئی قیمتوں کے حساب سے ڈالرز ملیں گے۔
لہٰذا انہوں نے جب پاکستان میں اپنے بینک سے رابطہ کیا تو ان کو کینیڈین ڈالر کی نئی قیمت کے حساب سے ری فنڈ ملا۔
انہوں نے بتایا کہ ’مجھے 162 کے مقابلے میں ایک ڈالر 215 کا ملا جس کے بعد میرے 17 لاکھ پاکستانی روپے 22 لاکھ 51 ہزار کے لگ بھگ ہو گئے۔ یہ رقم اب میرے پاکستانی اکاؤنٹ میں منتقل ہوچکی ہے۔‘
محمد عبد اللہ کے مطابق ’ملک میں جب ڈالر کی قیمت غیر مستحکم ہو تو بعض اوقات رقم اسی طرح بڑھتی اور گھٹتی ہے۔ جب ڈالر کی قیمت کم ہوتی ہے تو اکثر لوگ ڈالرز خرید کے رکھ لیتے ہیں اور قیمت بڑھنے پر فروخت کر دیتے ہیں اس طرح ان کو فائدہ ہوتا ہے۔‘
محمد عبداللہ نے کہا کہ ویزے کے لیے درخواست دینے میں دو لاکھ روپے خرچ ہوئے (فوٹو: ایم ٹی ایل بلاگ)
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ان کو اس دوران کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کہنے کی حد تک پانچ لاکھ روپے تک کا فائدہ ہوا، لیکن درحقیقت دو لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔‘
محمد عبداللہ نے کہا کہ ’ویزا کے لیے درخواست دینے، فلائی وائر سروسز چارجز اور دیگر کوائف پورے کرنے میں میرے دو لاکھ روپے خرچ ہوئے اور اب بیرون ملک دوبارہ داخلہ لینے کے لیے مجھے ڈالر کی موجودہ قیمت ادا کرنا ہوگی جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔‘
ان کے مطابق ’بیرون ممالک کے بعض تعلیمی ادارے فیس ری فنڈ کرتے وقت اس کا بڑا حصہ کاٹ لیتے ہیں جس کی وجہ سے ویزا نہ ملنے کی صورت میں نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ میں نے ایسے کئی طلباء دیکھے ہیں جنہوں نے بیرون ممالک داخلہ لینے کے لیے فیس ایک ڈالر 215 پاکستانی روپے کے حساب سے ادا کی ہے جو اگر اب واپس ملی تو ان کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے چنانچہ تعلیمی اداروں کی ری فنڈ پالیسی کے بارے میں علم ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔‘
اس میں شبہ نہیں کہ محمد عبداللہ کو پانچ لاکھ روپے کا فائدہ ہوا مگر ان کا بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کا خواب پورا نہیں ہو سکا جس کے لیے وہ دوبارہ کوشش کر رہے ہیں اور پُرامید ہیں کہ ان کا بیرونِ ملک سے تعلیم حاصل کرنے کا خواب ضرور پورا ہو گا۔