Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بشریٰ بی بی کا سوشل میڈیا پر زیرگردش ڈائری سے کوئی تعلق نہیں‘

اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا سنائی تھی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف نے سوشل میڈیا پر زیرگردش سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی مبینہ ڈائری اور اس کے متن کی مکمل تردید کی ہے۔
ترجمان پی ٹی آئی نے جمعے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’چیئرمین تحریک انصاف کی اہلیہ کا اس مبیّنہ ڈائری سے کوئی تعلق نہیں، اور نہ ہی وہ اس متن کی تصدیق کرتی ہیں۔‘
دوسری جانب پاکستانی میڈیا چینلز پر سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی ایک مبینہ ڈائری کا مواد چلایا جا رہا ہے جس میں بقول ٹی وی چینلز سابق خاتونِ اول پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سیاسی فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔
جمعے کو پاکستانی میڈیا پر نشر کیے جانے والے مواد کے مطابق سابق خاتونِ اول کی ڈائری کے اوراق میں عدالت اور حکومت پر دباؤ ڈالنے اور ان کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کا بھی ذکر ہے۔
ٹی وی چیبنلز کی جانب سے یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ ان کے پاس بشریٰ بی بی کی ڈائری پہنچی کیسے؟ لیکن پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی ڈائری وجود ہی نہیں رکھتی۔
بشریٰ بی بی کی مبینہ ڈائری اس وقت سوشل میڈیا پر بھی موضوعِ بحث ہے۔
پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب نے اس حوالے سے ایک ٹویٹ میں میڈیا پر نشر کی جانے والی مبینہ ڈائری کے مواد کو ’پروپیگنڈا‘ قرار دیا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ’جو چیزیں پولیس زمان پارک سے اُٹھا کر لے کر گئی ہے اس میں کوئی ڈائری شامل نہیں تھی، نہ ہی ہماری قانونی ٹیم کی جانب سے ڈائری سے متعلق کوئی رپورٹ درج کرائی گئی ہے۔‘
احتشام الحق نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’لگتا ہے عمران خان اور بشریٰ بی بی الگ الگ ملکوں میں رہتے تھے، اس لیے وہ ڈائری لکھ کر بھیجتی تھیں۔‘
ایٹلانٹک کونسل کے پاکستان انیشیٹو کے ڈائریکٹر عزیر یونس نے ڈائری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’بات اگر ڈائری تک آگئی ہے تو پھر خان صاحب کو ہی آنے دیں کیونکہ آپ سے نہیں ہو رہا استاد۔‘
اینکرپرسن نسیم زہرا نے لکھا کہ ’بشریٰ بی بی کی ڈائری وہی بات کہتی ہے جو پہلے ہی سب کو معلوم تھی۔ عمران خان کی اہلیہ اور مرشد ان کے سیاسی فیصلوں اور حکمت عملی کو کنٹرول کرتی تھیں۔ میڈیا میں کئی لوگوں نے اس پر تنقید بھی کی تھی۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’سوال یہ ہے کہ سابق آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف جنہوں نے عمران خان کو سیاسی طور پر گود لیا انہیں سب پتا تھا پھر بھی ان کے لیے یہ سب کیسے قابلِ قبول تھا؟‘
واضح رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا سنائی تھی اور وہ اس وقت اٹک جیل میں قید ہیں۔
عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد عمران خان پانچ سال کے لیے پارلیمانی سیاست میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔

شیئر: