غدر ٹو کی کہانی پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1971 کی جنگ کے تناظر میں فلمائی گئی ہے (فوٹو: سکرین گریب)
تھا جس کا انتظار وہ شاہکار ’نہیں‘ آیا۔ جی ہاں، نئی آنے والی فلم غدر کا دوسرا حصہ اس فلم کے پہلے حصے کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ لگتا ہے پاکستان دشمنی میں ہدایت کار انیل شرما ؎اداکار سنی دیول کے ہاتھ میں نظر آنے والا ہتھوڑا خود اپنے پاؤں پر مار بیٹھے ہیں۔
لیکن پڑوسی ملک کے لوگ یہ فلم ضرور دیکھیں گے کیونکہ اس کی بڑی وجہ وطن پرستی اور پھر اس فلم سے 22 سال پرانا رشتہ بھی ہے۔
فلم کے مرکزی کرداروں میں سنی دیول (تارا سنگھ) اور امیشا پاٹیل (سکینہ) کے ساتھ اس فلم کے ہدایت کار انیل شرما کے بیٹے اتکرش شرما، تارا سنگھ اور سکینہ کے بیٹے چرن جیت سنگھ کے کردار میں نظر آئیں گے۔
انھوں نے 2001 میں بننے والے اس فلم کے پہلے حصے میں بھی تارا سنگھ اور سکینہ کے بیٹے کا کردار ادا کیا تھا۔ ہیروئین ’مسکان‘ کا کردار تیلگو فلموں کی اداکارہ سمرت کور نے ادا کیا ہے۔
اس بار فلم 71 کی جنگ کے تناظر میں فلمائی گئی ہے جس کی کہانی بہت اچھی بن سکتی تھی مگر ساری فلم میں فیملی ڈرامہ بھرا ہوا ہے اور سیاسی زاویے سے فلم صفر ہے۔
سنی دیول کو ڈانس تو آتا نہیں لیکن اگر ان سے ڈائیلاگ بھی چھین لیے جائیں تو آپ کو معلوم ہے وہ کیا کریں گے؟ جی آپ صحیح سمجھے وہ بس ’چیختے‘ رہ جائیں گے اور یہی کام وہ اس فلم میں بطریق احسن کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
تارا سنگھ کی بیوی سکینہ (امیشا پاٹیل) جو ’غدر‘ کی اصلی وجہ تھیں، ان کا فلم میں ہونا نہ ہونا برابر محسوس ہوا۔ خود تارا سنگھ کو بھی فلم کے دوسرے ہاف میں سکرین ٹائم دیا گیا ہے۔
1971 میں ’کرش انڈیا‘ نامی ایک مہم کے دوران انڈیا اور پاکستان کے بارڈر پر کچھ جھڑپیں ہوتی ہیں جن میں تارا سنگھ غائب ہو جاتے ہیں۔ سب سمجھتے ہیں کہ انہیں پاکستان میں قید کر دیا گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔
یہ جان کر ان کے بیٹے چرن جیت باپ کو چھڑوانے کے لیے پاکستان کی راہ لیتے ہیں مگر شومئی قسمت خود پکڑے جاتے ہیں۔ اب تارا سنگھ اپنے بیٹے چرن جیت کو بچانے پاکستان جاتے ہیں جہاں وہ میجر جنرل حامد اقبال کی قید میں ہیں جو ان پر تشدد کر کے تارا سنگھ سے بدلہ لے رہے ہیں اپنے اُن 40 جوانوں کا جن کو 1947 میں تارا سنگھ نے سکینہ کے ساتھ پاکستان سے بھاگتے ہوئے مار دیا تھا۔
اقربا پروری کی بھرپور مثال قائم کرتے ہوئے ہدایت کار انیل شرما نے اپنے بیٹے کا فلمی کیریئر سیٹ کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر آپ کو آج کل نیند نہ آنے کا مسئلہ در پیش ہے تو فلم کا پہلا ہاف دیکھ لیں جو مکمل طور پر چرن جیت اور مسکان کی سُلا دینے والی محبت کی داستان پر مبنی ہے۔ ہو سکتا ہے اوور ایکٹنگ سے کہیں کہیں آپ کی نیند خراب بھی ہو جائے لیکن یہ رسک تو پھر لینا پڑے گا۔
ولن کے نام پر اداکار منیش وادھوا پاکستانی فوج کے ایک میجر جنرل حامد اقبال کے کردار میں مایوسی سے بھری اوور ایکٹنگ سے آپ کا ’سواگت‘ کریں گے۔ سر گنجا کر کے سگار پینے سے کوئی ولن نہیں بن جاتا کجا یہ کہ آپ اپنے آپ کو آنجہانی اداکار امریش پوری سمجھنے لگیں۔
سنی دیول نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ جب انھوں نے فلم غدر (پہلا حصہ) سائن کی تو بالی وڈ انڈسٹری کے بہت سے لوگوں نے ان پر تنقید کی کہ یہ سبجیکٹ کام کرنے لائق نہیں ہے اور گٹر (بہ وزن غدر) کہہ کہہ کر خوب مذاق اڑایا لیکن جب فلم سینما گھروں میں لگی تو اس نے ریکارڈ بزنس کیا۔
حیرت انگیز طور پر 2001 میں غدر کے ساتھ سینما پر لگنے والی اور آسکر تک پہنچنے والی فلم ’لگان‘ زیادہ بزنس نہیں کر سکی۔ لگان نے دنیا بھر سے تقریباً 58 کروڑ روپے اکٹھے کیے تھے جس کے مقابلے میں غدر فلم 100 کروڑ کا نفسیاتی ہندسہ عبور کر کے 111 کروڑ تک جا پہنچی تھی۔
مجھے لگتا ہے اب بھی اس فلم کے ساتھ یہی ہو گا۔ اداکار اکشے کمار اور پنکھج ترپاٹھی کی فلم ’او مائی گاڈ 2‘ بھی اسی فلم کے ساتھ ریلیز ہوئی ہے۔ تقریباً ایک ارب انڈین روپے سے بننے والی فلم غدر 2 اس وقت 40 کروڑ کا بزنس پہلے ہی روز باکس آفس پر کر چکی ہے جبکہ 1.5 ارب سے بننے والی فلم ’او مائی گاڈ 2‘ صرف 12 کروڑ کا بزنس کر پائی ہے۔
اس حقیقت کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ 2001 میں غدر فلم کے سارے گیت سپر ہٹ تھے وہیں اس کے ڈائیلاگ اور کردار آج تک یاد کیے جاتے ہیں۔ اس فلم پر سنگیت کار متھون نے بس یہ مہربانی کی ہے کہ غدر فلم کے پہلے حصے میں شامل گانوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی اور ان کو ویسے ہی رہنے دیا گیا ہے۔ غدر 2 میں شامل کیے گئے نئے گانے بالکل خاص نہیں ہیں بلکہ پہلے حصے میں پیش کیے جانے والے پرانے گانے ہی چھائے ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ فلم میں دوسری اچھی بات یہ ہے کہ جب فلم کے شروع میں اداکار نانا پاٹیکر کی تمہید باندھتی آواز آتی ہے اور وہ کہانی کو گزشتہ سے پیوستہ کرتے سنائی دیتے ہیں۔
تقریباً تین ہزار ووٹوں پر مشتمل سروے کے مطابق آئی ایم ڈی بی پر اس فلم کی ریٹنگ 10 میں سے 7۔6 ہے جبکہ ویب سائٹ ٹائمز آف انڈیا اس کو 5 میں سے 5۔2 نمبر دیتی ہے۔ فلم صرف دیش بھگتی اور وطن پرستی کی بنیاد پر چل رہی ہے اور آئندہ بھی چلے گی۔
میری رائے میں غدر، جنگ آزادی، اجاڑہ اور بٹوارے جیسے موضوعات پر فلموں کو بطور آرٹ کا نمونہ پیش کرنا چاہیے جس سے دل نرم ہوں لیکن یہ فلم محض تشدد اور نفرت کا پرچار ہے۔