Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں عام انتخابات سے قبل مسلمان مخالف فلموں سے خوف کی فضا

’دی کیرالہ سٹوری‘ ایک ایسے وقت ریلیز کی گئی تھی جب ریاست کرناٹک میں الیکشن ہو رہے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا میں مسلمانوں کو بدنام کرنے والی فلمیں عام انتخابات سے قبل خوف کی فضا کو جنم دے رہی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق مفت ٹکٹس اور جھوٹے دعوؤں کے ساتھ فلم ’دی کیرالہ سٹوری‘ اُن فلموں میں سے ایک ہے جن کے بارے میں یہ خدشات ظاہر کیے جاتے ہیں کہ بالی وُڈ کلچرل پروپیگنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے انڈیا کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے انتخابی میدان میں مدد کر رہا ہے۔
مسلمانوں کی مخالفت میں بنائی گئی اس فلم کو باکس آفس پر کامیابی ملی ہے اور اس کے ٹریلر میں دکھایا گیا کہ ’معصوم لڑکیوں کو پھنسا کر ذہن سازی کی گئی اور پھر دہشت گردی‘ کے لیے بھیجا گیا۔
فلم کے آغاز میں سکرین پر یہ بھی لکھ کر دعویٰ کیا گیا کہ ’کئی سچی کہانیوں سے متاثر‘ ہو کر بنائی گئی۔
ایک ہندو عورت کی فرضی کہانی جو اسلام قبول کرتی ہے اور پھر اسے بنیاد پرست بنا دیا جاتا ہے، یہ فلم 2023 کی اب تک کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی دوسری ہندی فلم ہے۔
ناقدین نے اس پر اور حال ہی میں ریلیز ہونے والی دیگر فلموں میں جھوٹ پھیلانے اور معاشرے میں تقسیم کو بھڑکانے کا الزام لگایا ہے جس میں آئندہ سال ہونے والے قومی انتخابات سے قبل مسلمان اقلیت کو بدنام کرنا بھی شامل ہے۔
فلم ڈائریکٹر سدپتو سین سے جب اے ایف پی نے ’دی کیرالہ سٹوری‘ کے سیاسی جھکاؤ کے بارے میں پوچھا تو اُن کا جواب تھا کہ ’میں تمام سیاسی جماعتوں سے کہوں گا کہ وہ میری فلم سے فائدہ اُٹھائیں، اس کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کریں۔‘
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت انڈیا میں فلم سنسرشپ کی ایک طویل تاریخ ہے لیکن بی جے پی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انڈسٹری تیزی سے ایسی فلموں کو رد کر رہی ہے جو وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کے نظریے کو فروغ دیتی ہیں۔
صحافی اور مصنف نیلنجن مکوپادھیائے کے مطابق انڈیا میں سنیما اور فلمیں عوام تک اپنے پیغام کو پہنچانے کا سب سے بڑا اور مؤثر ذریعہ ہیں۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ مودی کے دور میں فلموں کو معاشرے میں تقسیم بڑھانے والے ایسے پیغامات پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے جو سیاسی رہنماؤں کے تعصبات کی پیداوار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مذہبی اقلیتوں کے بارے میں تعصب پیدا کرنے اور نفرت کو عام لوگوں تک پہنچانے میں اب فلمیں کردار ادا کر رہی ہیں۔‘
’دی کیرالہ سٹوری‘ رواں سال مئی میں ایک ایسے وقت ریلیز کی گئی تھی جب ریاست کرناٹک میں الیکشن ہو رہے تھے۔
اس الیکشن میں وزیراعظم مودی کی بی جے پی کو سخت مقابلے کا سامنا تھا اور اس دوران پڑوسی ریاست مہاراشٹر میں فسادات بھی ہوئے جہاں پتھراؤ کے ایک واقعے میں ایک شخص ہلاک ہوا۔
وزیراعظم مودی نے ایک الیکشن ریلی کے دوران اس فلم کے حق میں بات کی اور الزام عائد کیا کہ مخالف سیاسی جماعت کانگرس ’دہشت گردی کے رُجحان کو فروغ‘ دے رہی ہے۔

بی جے پی سے منسلک افراد نے فلم ’دی کیرالہ سٹوری‘ کی مختلف علاقوں میں مفت نمائش کی (فائل فوٹو: سکرین گریب)

فلمی ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک کم بجٹ کی یہ فلم نام نہاد ’لو جہاد‘ کے سازشی نظریے کا پرچار کر رہی ہے جس کے مطابق مسلمان ہندو عورتوں کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔
فلم سازوں نے اس کے بعد اپنا یہ دعویٰ واپس لے لیا تھا کہ مسلمان نوجوانوں نے ریاست کیرالہ میں 32 ہزار ہندو اور مسیحی خواتین سے شادی کر کے اُن کو داعش کے جہادی گروپ کے پاس بھیجا۔
بی جے پی سے منسلک افراد نے اس فلم کی مختلف علاقوں میں مفت نمائش کی۔ پارٹی کے ترجمان گوپال کرشنا اگروال کے مطابق یہ اُن کی جماعت کی آفیشل پالیسی نہیں تاہم یہ ’رابطے کا ایک ذریعہ‘ کے تحت کیا گیا۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’آپ اپنے نظریے کے بارے میں کیسے بتاتے ہیں؟ اپنے لیڈر کی زندگی اور ان کی کہانی اور ان کے کام کے بارے میں آپ کیسے بتاتے ہیں؟ یہ ہمارا طریقہ ہے اور ہماری پارٹی کے لوگ اس طریقے سے انفرادی سطح پر ایسا خود کرتے ہیں۔‘

شیئر: