Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ مشکلات جو پاکستان میں سیاحت کے فروغ میں رکاوٹ ہیں

گزشتہ پانچ ماہ کے دوران 25 لاکھ سیاحوں نے ناران اور کاغان کا رُخ کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
وہ تیز موسیقی لگائے اپنی منزل کی جانب گامزن تھے، جو اب چند گھنٹوں کی دوری پر رہ گئی تھی۔ سہ پہر ہو رہی تھی اور وہ شام سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جانا چاہتے تھے تاکہ راستے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے مگر اس دوران ٹریفک کی رفتار آہستہ ہو گئی اور کچھ ہی دیر میں ٹریفک جام ہو چکی تھی۔
وہ پرامید تھے کہ ٹریفک جلد رواں دواں ہو جائے گی مگر ایسا نہیں ہوا اور وہ رات دیر گئے شہر پہنچے۔ انہوں نے اس بارے میں ٹورسٹ ہیلپ لائن پر شکایت بھی درج کروائی مگر حقیقت میں ان کے اس پورے ٹور کا مزہ کرکرا ہو گیا تھا۔
صوبہ خیبرپختونخواہ میں سیاحت کے لیے جانے والے سیاحوں کا ایک بڑا مسئلہ سڑکوں کی بندش بھی ہے جیسا کہ صوبے کی ٹورازم ہیلپ لائن کے مطابق، ’گذشتہ 5 ماہ کے دوران سیاحوں نے سب سے زیادہ سڑکوں کی بندش کے بارے میں ہی شکایات درج کروائیں۔
صوبے کے بالائی علاقے اپنے قدرتی حسن کی وجہ سے سیاحوں کی جنت قرار دیے جاتے ہیں جس کے باعث اس سیزن میں سیاح جوق در جوق ان مقامات کا رُخ کرتے ہیں۔
محض رواں سال کے اعداد و شمار ہی دیکھے جائیں تو ان پانچ ماہ مارچ سے جولائی کے دوران 71 لاکھ 55 ہزار سے زیادہ سیاحوں نے صوبہ خیبرپختونخواہ کا رُخ کیا۔

کون سے مقامات پر سیاحوں کا رش رہا؟ 

سیاح اگرچہ خیبرپختونخواہ کے تمام پرفضا مقامات پر جانا پسند کرتے ہیں جن میں مالاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن کے علاقے شامل ہیں۔ ان پانچ ماہ کے دوران 25 لاکھ سیاحوں نے ناران اور کاغان کا رُخ کیا۔
گلیات میں اس عرصہ کے دوران 20 لاکھ سیاح گئے جب کہ مالم جبہ (سوات) میں 14 لاکھ 53 ہزار ٹورسٹ سیر سپاٹے کے لیے آئے۔ 

خیبر پختونخوا کے بالائی علاقے قدرتی حسن سے مالا مال ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

غیرملکی سیاحوں کے پسندیدہ مقامات کون سے ہیں؟ 

ٹورازم اتھارٹی کے مطابق، گذشتہ 5 ماہ کے دوران 2 ہزار 88 غیرملکی سیاحوں نے خیبرپختونخواہ کے شمالی علاقوں کی سیاحت کی، ان میں سب سے زیادہ 763  سیاحوں نے لوئر چترال کا رُخ کیا جب کہ 471 غیر ملکی سیاح اپر چترال کی سیر کو گئے۔
 غیر ملکی سیاحوں کے ٹور پلان میں مالم جبہ اور کاغان کے ٹرپ بھی شامل رہے۔ 
سیاحت کے دوران درپیش آنے والی مشکلات؟
سیاحتی مقامات پر سیر سپاٹے کے لیے آنے والے سیاحوں کو مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ٹوارزم ہیلپ لائن 1422 پر درج کروائی گئی شکایات کی مجموعی تعداد 70 ہے، جن میں سب سے زیادہ 30 شکایت سڑکوں کی بندش کے متعلق درج کروائی گئیں۔
سیاحوں کو ہراساں کرنے کے واقعات بھی پیش آئے اور اس حوالے سے درج کروائی گئی شکایات کی تعداد 13 تھی۔ ہوٹلوں اور ریستورانوں کی جانب سے زیادہ کرایہ لینے سے متعلق بھی شکایات درج کروائی گئیں۔
خیبرپختونخوا ٹورازم اتھارٹی کے ترجمان سعد بن اویس نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جو شکایتیں موصول ہوتی ہیں، ان کو حل کرنے کے لیے اُسی وقت اقدامات کیے جاتے ہیں۔ سڑکوں، ہوٹلوں اور سیاحوں کو ہراساں کرنے سے متعلق شکایات متعلقہ کال سنٹر سے ٹورازم پولیس کو موصول ہوتی ہیں جن پر فوری عمل درآمد کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’مسئلہ اگر پھر بھی حل نہ ہو تو ضلعی انتظامیہ یا پھر پولیس کو آگاہ کیا جاتا ہے۔‘ 
ترجمان ٹورازم اتھارٹی کے مطابق، ’ٹورازم پولیس کو اس مقصد کے لیے خصوصی تربیت دی گئی ہے تاکہ یہ شکایات بہتر طریقے سے حل ہو سکیں۔‘ 
سعد بن اویس نے مزید بتایا کہ ’چترال، دیر، کاغان اور سوات میں سڑکوں کی بندش کا مسئلہ رہا ہے تاہم سیاحوں کو ہراساں کرنے کے واقعات کی تعداد نمایاں طور پر کم تھی۔
انہوں نے بتایا ’اسی طرح ہوٹلوں کی جانب سے زیادہ کرایہ لینے کی شکایات بھی مری کی نسبت بہت کم ہیں کیوں کہ ضلعی انتظامیہ  کے اقدامات کے باعث ہوٹل انتظامیہ بھی تعاون کر رہی ہے۔

قدرتی حسن کی وجہ سے سیاح جوق در جوق بالائی علاقوں کا رُخ کرتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی)

ضلعی انتظامیہ کیا اقدامات کر رہی ہے؟

ضلع لوئر چترال کے ڈپٹی کمشنر محمد علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ٹوارزم فیسلیٹیشن ہب سے جو شکایات ہمیں بھیجی جاتی ہیں وہ فوری حل کی جاتی ہیں۔ گذشتہ دو ماہ کے دوران کچھ علاقے سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جن کی وجہ سے چند دنوں کے لیے سڑکیں خراب ہوئی تھیں مگر ان کو بحال کرنے کی ذمہ داری این ایچ اے کی ہے۔‘ 
انہوں نے بتایا، ’سیاحوں کو ہراساں کرنا کسی بھی صورت قابلِ برداشت نہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔
 ڈی سی لوئر چترال نے کہا کہ ’سیاح ضلعی انتظامیہ کے کال سنٹر پر کال کر کے بھی اپنی شکایت درج کروا سکتے ہیں۔‘ 
ٹورسٹ گایئڈ سلیم جاوید نے بتایا کہ ’بہت سے سیاحوں کو ٹورازم ہیلپ لائن سے متعلق آگاہی نہیں ہوتی۔ اس لیے زیادہ تر شکایات درج نہیں ہو پاتیں۔
انہوں نے کہا کہ ’کاغان اور مالم جبہ میں ہوٹل انتظامیہ کے رویے اور زیادہ پیسوں کی وصولی کی شکایات وصول ہوئیں۔ اسی طرح سیاحوں کو لوٹنے کے واقعات بھی پیش آئے جن کے خلاف کارروائی بھی کی گئی۔‘ 
ان کا کہنا تھ کہ ’سیاحوں کو اگر کوئی تکلیف ہوتی ہے تو وہ دوبارہ ان علاقوں کا رُخ نہیں کرتے جس سے سیاحت کو نقصان پہنچتا ہے۔

شیئر: