توشہ خانہ: سپریم کورٹ میں عمران خان کے اپیلوں کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی
توشہ خانہ: سپریم کورٹ میں عمران خان کے اپیلوں کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی
جمعرات 24 اگست 2023 12:14
بشیر چوہدری -اردو نیوز، اسلام آباد
ں سپریم کورٹ کی سماعت جمعے تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
چیف جسٹس پاکستان نے سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا ہے کہ ’ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر لیتے ہیں، جیل میں چیئرمین پی ٹی آئی کی حالت زار پر بھی حکومت سے جواب لیں گے۔‘
جمعرات کو سپریم کورٹ میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ مقدمہ سن رہے ہیں اچھی بات ہے۔ اپنے حکم نامے میں عمران خان کواٹک جیل میں ملنے والی سہولیات پر بھی سوال اُٹھائیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر لیتے ہیں جس کے بعد سماعت میں وقفہ کیا گیا۔
تاہم بعد ازاں عدالتی عملے نے بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیلوں پر مزید سماعت آج نہیں ہوگی۔ عملے کے مطابق سپریم کورٹ میں توشہ خانہ کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے ہوگی۔
اُدھر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔
جمعرات کو کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کا آرڈر ہمیں موصول ہوا ہے۔ سپریم کورٹ نے آج سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کا کہا ہے۔‘
وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو ٹرائل کورٹ نے تین سال کی سزا سنائی۔ صدر مملکت نے 14 اگست کو قیدیوں کی چھ ماہ سزا معاف کی۔ عمران خان کی چھ ماہ کی سزا معاف کی جا چکی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کے پاس قانون کے مطابق کمپلینٹ دائر کرنے کا اختیار ہے۔ یہ کمپلینٹ الیکشن کمیشن کے سیکریٹری نے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے ذریعے دائر کی۔ الیکشن کمیشن کا سیکریٹری الیکشن کمیشن نہیں، وہ کمپلینٹ دائر کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔‘
لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ ریکارڈ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے کمپلینٹ دائر کرنے کا کوئی اجازت نامہ موجود نہیں۔ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے آگاہ کیا کہ الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ ریکارڈ میں موجود ہے۔
عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے نشاندہی کی کہ ’وہ اجازت سیکریٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی ہے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آپ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا کمپلینٹ دائر کرنے کا اجازت نامہ قانون کے مطابق نہیں؟‘ جس پر انہوں نے کہا کہ ’جی بالکل، وہ اجازت نامہ درست نہیں ہے۔‘
لطیف کھوسہ نے موقف اپنایا کہ ٹرائل کورٹ نے ہائی کورٹ کے آرڈر کو بھی نظر انداز کیا،اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو آٹھ سوالات پر دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو بھی نہیں مانا۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل منظوری کا فیصلہ چار اگست کی شام ملا۔ پانچ اگست کو خواجہ حارث کے منشی کو اغواء کیا گیا۔ بیان حلفی میں خواجہ حارث نے وجہ لکھی کہ کیوں وہ ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش نہیں ہو سکے۔
سابق وزیراعظم کے وکیل نے مزید کہا کہ ’ٹرائل کورٹ نے ہائی کورٹ کے جج کے فیصلے کی خلاف ورزی کی۔ ہمارا اعتراض یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کی کمپلینٹ درست فورم پر دائر نہیں کی گئی۔ الیکشن کمیشن کی کمپلینٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر کی جا سکتی تھی۔‘
لطیف کھوسہ کے مطابق مجسٹریٹ نے کیس سکروٹنی کر کے سیشن عدالت کو ٹرائل کے لیے بھیجنا ہوتا ہے۔ ٹرائل کورٹ کا آرڈر غلطیوں کے باعث برقرار نہیں رہ سکتا۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ عمران خان کی سزا معطل کی جائے۔ سزا کالعدم قرار دینے کی اپیل پر دلائل کے لیے ہم دوبارہ عدالت کے سامنے آئیں گے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں ان تمام ایشوز پر فیصلہ دیا گیا؟‘ جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ’بالکل نہیں، جو فیصلہ انہوں نے دیا تھا وہ ہائی کورٹ کالعدم قرار دے چکی ہے۔ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دیا تھا۔‘
سابق وزیراعظم کے وکیل نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’معذرت کے ساتھ آپ نے بھی ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ کرنے سے نہیں روکا۔ اگر ہائی کورٹ نے نہیں روکا پھر بھی جج کو حتمی فیصلہ نہیں دینا چاہیے تھا۔‘