Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بٹگرام: ’راستہ مشکل ہے لیکن پڑھائی نہیں چھوڑ سکتے‘

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام کی تحصیل الائی کے عبدالقیوم کے گھر سورج کی روپہلی کرنیں صبح ہونے کا اشارہ دے رہی ہیں۔
عبدالقیوم کا بیٹا رضوان اللہ سکول جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس کے والد اس کے چہرے پر چمک دیکھ سکتے ہیں جو ایک نئی زندگی ملنے کا پیغام دے رہی ہے، تاہم وہ رضوان کے سکول جانے میں جلد بازی کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں۔ وہ سکول میں یقیناً اسمبلی سے قبل پہنچنا چاہتا ہے تاکہ راستے کی دشواری کے باعث تاخیر نہ ہو۔
رضوان اللہ کو سکول جانے کے لیے دو پہاڑوں سے اترنا اور پھر آسمانوں کو چھوتے ہوئے ایک پہاڑ پر چڑھنا ہے۔
راستے میں ایک ندی بھی پار کرنی ہے۔ رضوان  کے والد کو یہ فکر ستائے جا رہی ہے کہ کیا وہ اتنا طویل راستہ پیدل طے کر سکے گا؟ کیا وہ بغیر کسی تکلیف کے گھر واپس لوٹ سکے گا؟
عبدالقیوم ان سوالات کے ساتھ اپنے بیٹے کو سکول جانے کے لیے رخصت کرتے ہیں جب کہ اس کی والدہ اس وقت تک دروازے پر کھڑی رہتی ہیں جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو جاتا۔
گذشتہ ہفتے 22 اگست کو الائی میں چیئر لفٹ کی تار ٹوٹنے کی وجہ سے سکول جانے والے بچوں سمیت آٹھ افراد 14 گھنٹوں تک فضا میں معلق رہے تھے جس کے بعد پاک فوج اور مقامی ریسکیو ٹیموں کے طویل آپریشن کے بعد لفٹ میں پھنسے بچوں اور لوگوں کو ریسکیو کیا گیا، جبکہ صوبائی حکومت نے اس واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے صوبہ بھر میں لگی چیئر لفٹس کی جانچ کا حکم دینے کے علاوہ بٹگرام میں اس چیئرلفٹ کو بند کر دیا تھا۔
لفٹ بند ہونے کے بعد سکول کے طالب علموں سمیت مقامی لوگوں کو آمد و رفت میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ 
مقامی لوگوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’چیئر لفٹ کے سیز ہونے سے ضلع بٹگرام کے دیہات جھنگڑی اور بٹنگی کے درمیان آمد و رفت معطل ہو گئی ہے کیوں کہ دونوں دیہات میں پیدل سفر کرنا ممکن نہیں ہے۔‘
بٹگرام کی تحصیل الائی سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن سید عبدالجبار  نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ بچے بہت بہادر ہیں کیوں کہ اس واقعے کے بعد تو ہم ابھی تک صدمے میں ہیں، لیکن یہ بچے واقعہ کے اگلے روز ہی اپنے سکول پہنچ گئے تھے۔‘
 سید عبدالجبار کا کہنا تھا کہ ’چیئرلفٹ بٹنگی کے علاقے سے پاشتو سے ہوتی ہوئی جھنگڑی تک جاتی تھی جس کے باعث ان تین علاقوں میں آمد و رفت ممکن ہوتی تھی، لیکن اب چیئر لفٹ بند کر دینے کے بعد یہ رابطہ بحال رکھنا مشکل ہو گیا ہے، جبکہ دونوں علاقوں کے درمیان موجود سڑک پر چار بائی چار کی گاڑی کے علاوہ کوئی گاڑی نہیں جا سکتی۔ ہم اِن گاڑیوں میں سامان لوڈ کر کے خود پیدل چلتے ہیں۔‘

رضوان اللہ کے والد عبدالقیوم نے بتایا کہ ’یہ سڑک اب آمد ورفت کے لیے خطرات سے خالی نہیں رہی۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)

رضوان اللہ کے والد عبدالقیوم نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ سڑک ہمارے بزرگوں کے وقت سے موجود ہے، حتیٰ کہ ہم بھی نہیں جانتے کہ یہ کب بنائی گئی تھی، لیکن یہ سڑک اب آمد ورفت کے لیے خطرات سے خالی نہیں رہی۔‘
سید عبدالجبار بتاتے ہیں کہ ’مقامی آبادی کو اس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ آٹے کی ایک بوری کی قیمت گھر پہنچتے پہنچتے ہزاروں روپے میں پڑتی ہے۔ جس کی وجہ آمد و رفت کا مہنگا ہونا ہے۔‘
رضوان اللہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ سکول جانے کے لیے یہی راستہ استعمال کرتے ہیں۔ اس راستے پر نہ تو کوئی پُل تعمیر کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا مناسب راستہ موجود ہے۔ ’ہم سکول جاتے جاتے راستے میں گرتے بھی ہیں اور ہمیں چوٹیں بھی آتی ہیں۔‘
رضوان اللہ کے والد عبدالقیوم کے مطابق اس راستے پر ایک غیرسرکاری تنظیم نے بہت عرصہ قبل ایک پُل تعمیر کیا تھا جو ندی میں پانی کا بہائو زیادہ ہونے پر بہہ گیا تھا، تاہم چیئر لفٹ کی سہولت میسر ہونے کی بدولت کسی نے اس کی کمی محسوس نہیں کی۔‘
چیئر لفٹ میں پھنسنے والے ایک اور طالب علم عرفان اللہ نے اردو نیوز کے ساتھ راستے کی دشواری سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا سکول ان کے گھر سے بہت دور ہے۔ ’پہلے تو ہم اسمبلی سے پہلے ہی سکول پہنچ جاتے تھے لیکن اب ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ان کو سکول پہنچنے میں پہلے زیادہ سے زیادہ بیس منٹ لگتے تھے، تاہم انہیں اب کم از کم دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
رضوان اللہ نے کہا کہ ان کا گھر سکول سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ’میرا گھر باقی دوستوں کے گھروں کے مقابلے میں سکول سے سب سے زیادہ فاصلے پر ہے۔ مجھے پہلے ایک پہاڑ سے نیچے اترنا ہوتا ہے اور پھر وہاں سے میں مزید نیچے ندی کی طرف جاتا ہوں جہاں سے مجھے سکول کے لیے ندی پار کر کے اوپر چڑھنا ہوتا ہے۔‘

رضوان اللہ نے کہا کہ راستے میں ان کی سانس پھول جاتی ہے اور بسا اوقات تو وہ سکول ہی نہیں پہنچ پاتے (فوٹو: اردو نیوز)

 وہ بتاتے ہیں کہ راستے میں ان کی سانس پھول جاتی ہے اور بسا اوقات تو وہ سکول ہی نہیں پہنچ پاتے۔
رضوان اللہ کے والد عبدالقیوم نے بتایا کہ ’علاقے میں آمد و رفت کے لیے سرکاری سطح پر کوئی سہولت فراہم نہیں کی گئی جبکہ ہمارے ہاں کوئی پرائمری سکول بھی نہیں ہے اور تو اور یہاں ہسپتال ہے نہ ہی پانی کی فراہمی کا کوئی انتظام۔‘
عرفان اللہ کے والد عمریس خان کے مطابق ’اس واقعے کے بعد میرے بچے کو نئی زندگی ملی ہے۔ اسے اب دل پر پتھر رکھ کر سکول بھیجتا ہوں۔ ہم تو پہاڑی لوگ ہیں اور ان راستوں پر چلنے کے عادی ہیں، لیکن اس کے باوجود کوئی بھی والد اپنے بچے کو ان راستوں پر جاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔‘
 وہ بتاتے ہیں کہ یہ راستہ اس قدر دشوار ہے کہ بچے اکثر ندی میں ڈوب جاتے ہیں۔
سماجی کارکن سید عبدالجبار کے مطابق ان علاقوں میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کی ایک وجہ سیاسی نمائندوں کی لاپرواہی بھی ہے۔ سیاسی نمائندے ہر الیکشن میں ووٹ مانگنے کے لیے صرف ایک دن ان دشوار گزار راستوں پر سفر کرتے ہیں، لیکن اس کے بعد وہ کبھی نظر نہیں آتے۔
رضوان اللہ کے والد عبدالقیوم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے علاقے میں بنیادی سہولیات کے ساتھ ساتھ سڑکوں کی تعمیر پر خاص توجہ دی جائے اور یہاں سرکاری سکول بھی قائم کیا جائے۔

شیئر: