150 ڈالر فی کپ، دنیا کی مہنگی ترین کافی واقعی بِلّی کا فُضلہ ہے؟
150 ڈالر فی کپ، دنیا کی مہنگی ترین کافی واقعی بِلّی کا فُضلہ ہے؟
جمعہ 1 ستمبر 2023 6:55
جاوید مصباح -اردو نیوز، اسلام آباد
سیوٹ کیٹ بلی کی طرح کا جانور ہے جو ایشیا اور افریقہ کے جنگلوں میں پایا جاتا ہے (فوٹو: اینیمل پاٹ)
جانے بلی کو خواب میں کبھی چِھچھڑے دکھائی دیے یا نہیں، نہ ہی اس امر کے شواہد ملتے ہیں کہ اس کے بھاگوں کبھی کوئی چھینکا ٹوٹا ہو، تاہم اس کی فرسٹ کزن ایک ایسا خواب ضرور دیکھ بیٹھی جس کی تعبیر کافی ’تلخ‘ ہے اور اس کے سامنے جو برتن گرا اس میں دودھ نہیں کافی تھی، جو دنیا کو بھی کافی مہنگی پڑ رہی ہے۔
کافی دنیا کا مشہور مشروب ہے جس کی نمایاں اقسام میں بلیک، ایسپریسو، کیفے لائے، کیپو چینو، کیفے موچا سمیت دیگر شامل ہیں مگر یہاں اس کی جس قسم پر بات ہونے جا رہی ہے وہ اپنے اندر بہت سی عجیب باتیں رکھتی ہے جن کے بارے میں جانتے وقت حیرت بھی ہوتی ہے اور کراہت بھی، جبکہ رونگٹے کھڑے ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی دیگر اقسام سے دل اچاٹ ہونے کا بھی احتمال رہتا ہے۔
نیشنل جیوگرافک ڈاٹ کام پر ’دنیا کی مہنگی ترین کافی کے پیچھے چھپا پریشان کُن راز‘ کی شہ سُرخی سے تفصیلی رپورٹ دی گئی ہے جس میں ’سیوٹ کیٹ‘ اور کافی کے ناقابل یقین تعلق کا ذکر ہے۔
سیوٹ کیٹ کیا ہے؟
یہ بلی کی ایک قسم ہے جس کو مشک بلاؤ یا جنگلی بلی بھی کہا جاتا ہے اس کی جسامت بلی جیسی جبکہ چہرہ کسی حد تک نیولے سے مشابہہ ہوتا ہے اور ماہرین حیوانات اس کا تعلق بلی کے خاندان سے ہی جوڑتے ہیں۔
سیوٹ کیٹ ایشیا اور افریقہ کے جنگلوں میں رہتی ہے یہ چیری سمیت دوسرے پھل شوق سے کھاتی ہے تاہم گوشت خور بھی ہے اس لیے کیڑے مکوڑے، مینڈک، چھوٹے سانپ اور چھپکلیاں وغیرہ چٹ کرنے میں بھی طاق ہے۔
اس کو شرمیلا اور انسانوں سے دور رہنے والا جانور سمجھا جاتا ہے اور اکثر رات کے وقت شکار کے لیے نکلتا ہے۔ مشک بلاؤ کہلانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے سرین میں نافہ ہوتا ہے جس میں خوشبودار مادہ ہوتا ہے۔
کوپی لواک کی تاریخ
19 ویں صدی میں ڈچ ایمپائر نے انڈونیشیا میں کافی کے باغات لگائے چونکہ وہاں سیوک کیٹ بہت زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہے اس لیے انہوں نے کافی کے بیج کھانا شروع کیے اور فُضلہ بھی انہی باغات میں خارج کرتیں۔
یہ معلوم نہیں ہے کہ پہلی بار مشک بلاؤ کے فضلے سے حادثاتی طور پر کافی بنا کر پی گئی یا پھر منصوبہ بندی سے ایسا کیا گیا تاہم یہ بات عیاں ہے کہ اس کے بعد اس ذائقے کے چرچے ہونے میں قطعاً وقت نہیں لگا اور چند ہی برسوں میں اس کی بڑھتی مانگ نے اس کی قیمت کو بھی پر لگا دیے۔
اس کے بعد باغات اور کھیتوں سے سیوٹ کیٹ کا فضلہ تلاش کیا جانے لگا، ان کو باغات میں آنے کا زیادہ سے زیادہ موقع دیا جانے لگا اور بات کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں سے عالمی کاروباری اداروں تک پہنچی۔
امارت کی علامت
آج بھی دنیا کے کسی ایسے مقام پر جایا جائے جہاں امارت اپنے پُھریرے لہرا رہی ہو وہاں کوپی لواک کی خوشبو محسوس کی جا سکتی ہے جبکہ بڑے بڑے ہوٹل بھی اس کی فراہمی کا اہتمام رکھتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کوپی لواک کے ایک کپ کی قیمت ایک 120 سے ڈیڑھ سو ڈالر (تقریباً 46 ہزار روپے) تک ہے۔
فضلے سے کافی کی تیاری کے مراحل
زرعی علاقوں میں سیوک کیٹ کا فضلہ جمع کرنے کے لیے باقاعدہ کارکن رکھے جاتے ہیں جو مختلف علاقوں سے اسے اکٹھا کر کے مرکزی مقام یا گودام تک پہنچاتے ہیں جہاں اس کو دھویا جاتا ہے اور اچھی طرح صاف کرنے کے بعد دھوپ میں یا مشینوں کے ذریعے خشک کیا جاتا ہے۔
اس کی شکل بلی کے فضلے جیسی ہی ہوتی ہے تاہم اس میں کافی کے ادھ کھائے اور پورے دانے نظر آتے ہیں۔ خشک ہونے کے بعد اس کو بعض دیگر مراحل سے گزار کر پیس لیا جاتا ہے اور تب یہ پانی یا دودھ میں ڈال کر پینے کے لیے تیار ہوتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ سیوک کیٹ جو بیج کھاتی ہے ان کو پوری طرح ہضم نہیں کر پاتی اور بیجوں میں موجود پروٹینز کی ساخت تبدیل کر دیتی ہیں، جس سے ان میں پائی جانے والی تیزابیت میں کمی آتی ہے جبکہ جسم سے ایسے اجزا بھی ان میں شامل ہو جاتے ہیں جو اس کے ذائقے کو ایک خاص رخ میں تبدیل کر دیتے ہیں جس کو زیادہ تر لوگ پسند کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق نظام انہضام سے گزرنے کے باوجود جب فضلے کو دھو کر خشک کر لیا جاتا ہے تو اس میں مضر صحت اجزا شامل نہیں ہوتے بلکہ عام کافی کی طرح کیفین وغیرہ ہی ہوتے ہیں تاہم اس کا ذائقہ عام کافی سے اچھا خاصا مختلف ہوتا ہے۔
انڈونیشیا میں سیاحت بڑھنے کی ایک وجہ سیوک کیٹ کو بھی سمجھا جاتا ہے وہاں لوگ اس سمیت دوسرے جانور دیکھنے اور کوپی لواک کی چُسکیاں لینے بھی جاتے ہیں۔
جب بلی منافع خوروں کے ہتھے چڑھی
جب فُضلے کے نکتے سمیت دیگر عجیب باتیں ذائقے تلے دبتی گئیں تو جہاں کوپی لواک کی قیمت بڑھی وہیں کاروباری اداروں کو بھی یہ منافع بخش پہلو نظر آیا، جس کے بعد سیوٹ کیٹ کو پکڑا جانے لگا اور پنجروں میں بند کر کے ’منافع‘ وصول کرنے کی دوڑ شروع ہوئی۔
رپورٹ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے وائلڈ لائف یونٹ اور غیر کاروباری ادارے ورلڈ اینیمل پروٹیکشن کے ماہرین کے مشاہدات شامل کیے گئے ہیں۔ جن سے ایک خوفناک تصویر سامنے آئی۔
اداروں کے نتائج پر مبنی رپورٹ جرنل اینیمل ویلفیئر نام کے جریدے میں شائع ہوئی، جس میں بتایا گیا تھا کہ بالی میں اس وقت کئی بلیوں کو چھوٹے چھوٹے پنجروں میں بند کر کے رکھا گیا اور ان کے سامنے کافی کے بیج ڈالے جاتے ہیں اور بلیاں صرف وہی کھانے پر مجبور ہیں۔ جس کے بعد وہ پنجروں میں ہی فضلہ خارج کرتی ہیں جن کو اکٹھا کرنے کے بعد پراسس کر کے کافی بنائی جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق جہاں سیوٹ کیٹس کو رکھا گیا وہاں کا ماحول بہت خراب تھا۔ ہوا کے مناسب گزر کا انتظام تھا نہ ہی اتنی جگہ جو بلیوں کی معمول کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے موزوں ہو۔
محققین میں شامل نیل ڈی کروزے نے بالی کا دورہ کرنے کے بعد بتایا تھا کہ ’ان میں سے کچھ پنجرے بہت چھوٹے تھے اور گند سے اٹے ہوئے تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بلیوں کو صرف کافی بینز اور چیریز کھانے کے لیے دی جاتی تھیں حالانکہ فطرتاً وہ گوشت خور ہونے کے ساتھ ساتھ دوسری چیزیں بھی کھاتی ہیں، جو کہ ان کو مہیا نہیں ہو رہی تھیں جس کی وجہ سے ان کی صحت پر برے اثرات مرتب ہو رہے تھے۔‘
’کچھ بلیاں انتہائی کمزور تھیں اور کچھ انتہائی موٹی ہونے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے بھی قاصر تھیں اور بری طرح کیفین کے زیراثر تھیں۔‘
رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ بلیوں کو صاف پانی تک دیا جا رہا تھا نہ دوسری بلیوں سے گھلنے ملنے کا موقع، جبکہ ان کو جہاں رکھا گیا تھا وہاں ٹریفک کا شور بھی بہت زیادہ تھا۔
فارمی یا جنگلی کافی میں فرق
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان میں وہی فرق ہے جو فارم پر بننے والی اور قدرتی اشیا میں ہوتا ہے یعنی غذائیت اور تاثیر مختلف ہوتی ہے تاہم زیادہ تر فروخت ہونے والی کافی پر ’جنگلی‘ کا ہی لیبل لگایا جاتا ہے۔
دنیا میں آج بھی کافی کے حصول کے لیے سیوٹ کیٹ کو فارمز پر رکھا جاتا ہے اور ان کی افزائش نسل بھی اسی مقصد کے تحت ہو رہی ہے کہ اس کی بدولت مہنگی ترین کافی حاصل کی جائے۔
سیوٹ کیٹ اور پاکستان
پاکستان اور انڈیا سمیت دیگر قریبی ممالک میں بھی سیوٹ کیٹ پائی جاتی ہے اور اپریل میں جس جانور نے پارلیمنٹ ہاؤس میں گھس کر عملے کی ہی نہیں میڈیا والوں کی بھی دوڑیں لگوا دی تھیں اور بات ’خطرناک جنگلی جانور‘ سے ہوتی ہوئی ’بیرونی سازش‘ اور ’بدشگونی‘ جیسے تجزیوں تک پہنچی تھی۔ جس کے بعد محکمہ جنگی حیات کی جانب سے بتایا تھا کہ وہ بھی سیوک کیٹ ہی تھی جو ایک بے ضرر جانور ہے جس کو بعدازاں ’حراست‘ میں لے لیا گیا تھا۔