Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں گرفتار ہونے والے پاکستانی فیض محمد کا خاندان ایک فون کال کا منتظر

فیض محمد اس وقت انڈین پولیس کی حراست میں ہیں اور ان کے سسرال والے فرار ہو چکے ہیں۔
جن دنوں فیض محمد دبئی میں ایک کمپنی میں درزی کا کام کرتے تھے ان ہی دنوں ان کی ملاقات نیہا فاطمہ نامی ایک انڈین لڑکی سے ہوئی جو ملازمت کی تلاش میں تھیں۔
دونوں میں دوستی ہوئی جو بہت جلد محبت میں تبدیل ہو گئی اور فیض محمد نے نیہا فاطمہ سے شادی کر لی۔ ان کا ایک بیٹا بھی ہوا۔
دونوں دبئی میں ایک خوشگوار شادی شدہ زندگی گزار رہے تھے مگر جلد ہی ان میں اس وقت جدائی ہوئی جب نیہا فاطمہ بیٹے کو لے کر انڈیا چلی گئیں۔
وہ اب صرف فون پر ہی ایک دوسرے سے رابطہ کر سکتے تھے مگر فیضں محمد اپنی بیوی اور بیٹے سے ملنے کے لیے بے تاب تھا۔ اس لیے انہوں نے دوستوں سے مشورہ کر کے انڈیا جانے کا فیصلہ کیا۔
فیض محمد نیپال کے راستے انڈیا پہنچے جس میں ان کی مدد ان کے سسر شیخ زبیر اور ساس افضل بیگم نے کی۔ انہوں نے فیض کو مقامی دستاویزات بنوانے کا یقین دلایا تھا۔
انہوں نے فیض محمد کا جعلی پیدائشی سرٹفیکیٹ بنوانے کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹے کے طور پر محمد غوث کے نام سے ان کا سرکاری ریکارڈ میں اندراج کروانے کی کوشش بھی کی مگر وہ پولیس کی نظروں سے نہ بچ سکے اور فیض محمد کو  گرفتار کر لیا گیا۔
وہ اس وقت پولیس کی حراست میں ہیں اور ان کے سسرال والے فرار ہو چکے ہیں۔
فیض محمد کی گرفتاری کی خبر کو بھارتی میڈیا پر خوب اچھالا گیا۔ جب اس کے بارے میں ضلع شانگلہ کی تحصیل بشام کے بس اڈے پر کام کرنے والے فیض محمد کے بھائی اقبال حسین کو معلوم ہوا تو وہ سکتے میں آ گئے۔
وہ پیر کو اپنے کام پر جا رہے تھے جب انہوں نے ایک ایسی فون کال ریسیو کی جسے سن کر موبائل ان کے ہاتھ سے گر گیا اور ان کے لیے بات کرنا مشکل ہو گیا۔

انڈین میڈیا کی رپورٹ کے مطابق فیض محمد نومبر 2022 سے حیدر آباد کے علاقے کشن باغ میں اپنے سسرال میں رہائش پذیر تھے۔

اقبال حسین بشام شنگ قصبے کے رہائشی ہیں۔ ان کے والد انتقال کر چکے ہیں اور  گھر کا بڑا ہونے کے ناتے وہ والد کا فرض بھی ادا کر رہے ہیں۔
ان کو گذشتہ روز ایک مقامی صحافی کی کال آئی۔ اقبال حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مقامی صحافی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ کے چھوٹے بھائی فیض محمد نے حالیہ چند روز میں آپ سے کوئی رابطہ  قائم کیا ہے؟ ایک صحافی کی جانب سے اس نوعیت کے سوال کا کیا جانا تشویش ناک تھا۔ میں نے جب یہ استفسار کیا کہ آپ ایسا کیوں پوچھ رہے ہیں؟ میرا بھائی ٹھیک تو ہے نا؟ میری آواز میں کپکپاہٹ نمایاں تھی اور میں پریشان ہو کر بے ہوش ہو گیا۔‘
’مجھے بعد میں میڈیا سے معلوم ہوا کہ میرا بھائی فیض محمد انڈیا میں گرفتار ہوگیا ہے۔ میرا بھائی 2018 میں دبئی گیا تھا جہاں وہ ایک گارمنٹس فیکٹری میں بطور درزی کام کرتے تھے۔ وہ ہمیں 30 ہزار روپے ماہانہ بھیجتا تھا لیکن کورونا کی عالمی وبا کے دوران اس نے پیسے نہیں بھیجے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ان کا بھائی 2023 کے اوائل میں پاکستان آیا اور یہاں دو مہینے گزارنے کے بعد پھر بیرون مُلک جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ وہ جب اس بار پاکستان آیا تو کہنے لگا، وہ یہاں سے واپسی پر کینیڈا جا رہا ہے۔ ہم یہ خبر سن کر بہت خوش ہوئے لیکن اب انڈین میڈیا سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وہ گرفتار ہو چکا ہے۔‘
اقبال حسین کا کہنا تھا کہ ’مجھے صحافی نے اپنے فون پر ایک ویڈیو دکھائی اور یہ استفسار کیا کہ کیا یہ آپ کے بھائی ہیں؟ میں نے جب ویڈیو دیکھی تو انڈین پولیس میرے بھائی کو گرفتار کر کے لے جا رہی تھی۔ میں نے پہچان لیا کہ یہ تو میرا بھائی فیض محمد ہے۔‘
انڈین میڈیا کی رپورٹس کے مطابق حیدرآباد میں بہادر پورہ پولیس نے 31 اگست کو جمعرات کو کارروائی کرتے ہوئے ایک پاکستانی شہری کو گرفتار کیا۔
انڈیا کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے، ’فیض محمد نامی پاکستانی شہری اپنی 29 سالہ اہلیہ نیہا فاطمہ سے ملنے نیپال بارڈر کراس کر کے غیرقانونی طور پر انڈیا میں داخل ہوئے تھے۔‘

انڈین میڈیا کے مطابق حیدر آباد میں بہادر پورہ پولیس نے ایک پاکستانی شہری کو گرفتار کیا۔ (فوٹو: انڈین ایکسپریس)

اقبال حسین نے بتایا کہ ’انہیں بھی انڈین میڈیا سے معلوم ہوا کہ ان کے بھائی نے شادی کر لی ہے۔ ہمیں آج تک اُس کی شادی کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا اور نہ ہی یہ معلوم تھا کہ اُس کا ایک بیٹا بھی ہے۔‘
’بھائی مجھ سے اور والدہ سے ڈرتے تھے اس لیے انہوں نے ہمیں کچھ نہیں بتایا۔ میرا اندازہ ہے کہ فیض محمد نے 2019 میں شادی کر لی تھی لیکن اُس نے کبھی اس کا ذکر نہیں کیا۔‘
ان کے مطابق جب فیض محمد پاکستان آیا تو ان کی اہلیہ نیہا فاطمہ انڈیا چلی گئیں۔ ’مجھے لگتا ہے کہ یہ دونوں رابطے میں تھے اور ان کی اہلیہ نے ہی اسے انڈیا بلایا ہو گا یا شاید وہ اپنے بچے کو دیکھنے انڈیا گیا ہو گا۔‘
اقبال حسین کے بقول ان کا خیال تھا کہ وہ کینیڈا جا چکا ہے۔
’24 اگست کے بعد ہمارا ان سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ ہم ان کو واٹس ایپ اور میسجنر پر پیغامات بھیجتے رہے لیکن اس کا جواب نہیں آیا۔‘
انڈین میڈیا کی رپورٹ کے مطابق فیض محمد نومبر 2022 سے حیدر آباد کے علاقے کشن باغ میں اپنے سسرال میں رہائش پذیر تھے۔
اقبال حسین نے کہا ان سے کسی نے ابھی تک رابطہ نہیں کیا۔
’میں تو بس ایک فون کال کے انتظار میں ہوں کہ کب مجھے کال آئے گی اور میں اپنے بھائی کی آواز سن سکوں گا۔ میری حکومت سے درخواست ہے کہ ان کی پاکستان واپسی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔‘
اقبال حسین ان دنوں مقامی جرگہ مشران اور دیگر بااثر افراد سے رابطہ کر رہے ہیں تاکہ ان کے بھائی کو بحفاظت واپس لایا جا سکے۔

شیئر: