Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان میں ایسا کوئی اسلحہ نہیں چھوڑا جو ’ٹی ٹی پی‘ کے ہاتھ لگا ہو، امریکہ

جان کربی نے کہا کہ امریکی اسلحہ تحریک طالبان پاکستان کے ہاتھ نہیں لگا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
امریکہ کی نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ اُن کی افواج نے افغانستان میں انخلا کے وقت ایسا کوئی اسلحہ نہیں چھوڑا جو تحریک طالبان پاکستان کے ہاتھ لگا ہو۔
واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں جان کربی نے کہا کہ ’امریکی افواج نے افغانستان میں کوئی اسلحہ یا فوجی ساز و سامان نہیں چھوڑا۔ انخلا کے وقت چند جہاز اور معمولی سامان ایئرپورٹ پر چھوڑا گیا جو قابلِ استعمال حالت میں نہیں تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جو چیزیں افغانستان میں ایئرپورٹ پر چھوڑیں وہ چند ٹَگ مشینیں اور آگ بجھانے کے آلات تھے جن کی طالبان کو ضرورت ہو سکتی تھی۔
جان کربی نے کہا کہ ’لوگ جن آلات یا فوجی ساز و سامان کا کہتے ہیں کہ ہم چھوڑ کے آئے وہ انخلا سے بہت پہلے افغانستان کی افواج کے حوالے کیا جا چکا تھا۔‘
امریکہ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر سے پریس بریفنگ کے دوران ایک پاکستانی صحافی نے پوچھا تھا کہ امریکی افواج کے انخلا کے وقت افغانستان میں چھوڑا گیا سات ارب ڈالر کا اسلحہ تحریک طالبان پاکستان، داعش اور القاعدہ کے جنگجوؤں کے ہاتھ لگا ہے۔
جان کربی نے بتایا کہ ’امریکی اسلحہ افغانستان کی فوج کے حوالے کرنا مشن کا حصہ تھا جس کے تحت وہاں کی قومی افواج کی تربیت کی گئی۔‘
انہوں نے کہا کہ جب طالبان نے کابل اور افغانستان کے دیگر شہروں میں پیش قدمی کی تو افغان نیشنل فورسز نے امریکی اسلحہ اسی طرح چھوڑ دیا، امریکی افواج نے ایسا نہیں کیا۔
امریکہ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر سے پوچھا گیا کہ چند ماہ قبل صدر بائیڈن نے پاکستان کے بارے میں کہا تھا کہ خطرناک ترین ملک ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، تو اُن کے پاکستان کے بارے میں ایسے کیا خدشات ہیں؟

امریکہ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائرز کے مطابق امریکی افواج کا اسلحہ افغان فوج کے حوالے کیا گیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

جان کربی نے جواب دیا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کے عوام دہشت گردی کے خطرے کا شکار ہیں، خاص طور پر افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں۔ اور ہم پاکستان کے ساتھ اس پر کام جاری رکھیں گے۔‘
’اور یہ (تعاون) یقیناً اسی حد تک ہوگا جس سے پر وہ راضی ہوں گے۔ ان کے اپنے لوگوں اور اپنی سرحدوں کے لیے سکیورٹی خطرات سے نمٹنے میں مدد کرنے کے لیے، کیونکہ یہ کوئی معمولی خطرہ نہیں ہے۔ ایک بہت بڑا خطرہ ہے جو پاکستان کے عوام کو اب بھی لاحق ہے۔ اور صدر بائیڈن اس کو سمجھتے ہیں، اور وہ پاکستان کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنے کے عزم پر قائم ہیں۔‘

شیئر: