Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پسند کی شادی‘ نہ ہونے پر رینجرز اہلکار نے دو لڑکیوں کو زندہ جلا دیا

ملزم کے اقبالِ جرم کے بعد ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کر دی گئی ہیں (فوٹو: روئٹرز)
لاہور کے علاقے غازی آباد میں جون کے آخری ہفتے کی رات ایک گنجان اور تنگ گلی میں چھوٹے سے مکان کے باہر ایک نقاب پوش شخص ہاتھ میں ایک بوتل اُٹھائے کھڑا تھا۔
جب اُسے یقین ہو گیا کہ کوئی اسے دیکھ نہیں رہا تو وہ اس چھوٹے سے مکان کے ساتھ لگے بجلی کے کھمبے پر چڑھنے لگا۔ چند ہی لمحوں بعد وہ اس گھر کی چھت پر تھا۔
اس چھت پر تین چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں جن پر تین ہی افراد سو رہے تھے۔
نقاب پوش شخص نے غور سے انہیں دیکھا جیسے شناخت کر رہا ہو اور پھر ہاتھ میں پکڑی بوتل کو ایک چارپائی پر اُنڈیل دیا۔
اس بوتل میں پیٹرول تھا جسے پھینکنے کے بعد اس نے جیب سے لائٹر نکالا اور آگ لگا دی اور بڑی پُھرتی سے چھت سے چھلانگ لگا کر رفو چکر ہو گیا۔
گھر کی چھت پر سوئی سات سالہ معافیہ اور 14 سالہ طیبہ آگ کی لپیٹ میں آ گئیں، چیخ و پکار ہوئی تو ساتھ والی چارپائی پر سوئی خاتون اور ان کے گھر کے دیگر افراد بھی گھبرا کر اُٹھے اور آگ بجھانے کی کوششیں شروع کر دیں۔
دونوں بچیاں اپنے آپ کو بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھیں، جب تک آگ بُجھی دونوں بُری طرح جُھلس چکی تھیں۔ انہیں فوری طور پر لاہور کے میو ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم چند روز بعد دونوں کا انتقال ہو گیا۔
کم عمر لڑکیوں کو کس نے زندہ جلایا؟
وقوعے کی ایف آئی آر تھانہ غازی آباد میں نامعلوم شخص کے خلاف درج کر لی گئی کیونکہ یہ معلوم نہیں ہو پا رہا تھا کہ دو کم عمر لڑکیوں کو زندہ کس نے جلایا؟
مقدمہ درج ہونے کے بعد پولیس نے کیس کی تفتیش کا آغاز کر دیا۔
تھانہ غازی آباد کے انچارج انویسٹیگیشن منصب خان نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ بظاہر ایک اندھے قتل کا کیس تھا۔ کیونکہ کسی نے اس رات گلی میں آنے والے شخص کو نہیں دیکھا تھا۔ یہ ایک غریب علاقہ ہے اور ارد گرد کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ بھی نہیں تھا۔ ہم نے اپنے طریقے سے تفتیش کا آغاز کر دیا اور اس خاندان کے افراد کی تفصیلات اکھٹی کیں۔‘

جب دونوں لڑکیاں ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں تھیں تو پولیس کیس کی گُتھیاں سلجھانے میں مصروف تھی (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ ’اس گھر میں دو خاندان رہ رہے تھے۔ مالک مکان اور کرایہ دار۔ چھوٹی بچی معافیہ مالک مکان جبکہ طیبہ کرایہ دار کی بیٹی تھی۔ اس سے کیس میں مزید الجھاؤ آ رہا تھا کیونکہ دونوں کی آپس میں نہ تو کوئی رشتہ داری تھی اور نہ کسی سے اکھٹی دشمنی۔‘
پولیس نے کرایہ دار خاندان کی معلومات اکھٹی کیں تو یہ بات سامنے آئی کی طیبہ کی بڑی بہن کی شادی چھ مہینے پہلے شفیق نامی ایک شخص سے ہوئی تھی۔ شفیق کا چھوٹا بھائی عتیق طیبہ سے شادی کرنا چاہتا تھا تاہم ابھی تک یہ رشتہ طے نہیں ہوا تھا۔
منصب خان کے مطابق ’ساری چھان بین میں سوائے اس رشتے والی بات کے سامنے آنے کے اور کچھ نہیں نکلا تو ہم نے اسی ایک نکتے پر باریکی سے تحقیقات شروع کر دیں۔‘
پولیس ملزم تک کیسے پہنچی؟
جب دونوں لڑکیاں میو ہسپتال لاہور میں زندگی اور موت کی کشمکش میں تھیں تو پولیس کیس کی گُتھیاں سلجھانے میں مصروف تھی۔
تفتیشی افسر کے مطابق ’یہ ایک بڑا واقعہ تھا تو پولیس تواتر سے ہسپتال بھی جا رہی تھی۔ اس عتیق نامی شخص سے پولیس کی روزانہ کی بنیاد پر ملاقات ہو رہی تھی کیونکہ وہ ہسپتال میں تیمارداری کے لیے ہر وقت موجود ہوتا تھا۔‘
پولیس نے عتیق کا موبائل ڈیٹا ریکارڈ اور اس رات کی لوکیشن نکلوائی تو وہ اسی علاقے میں موجود تھا۔ انچارج انویسٹیگیشن منصب خان نے بتایا کہ ’عتیق رینجرز میں تعینات تھا اور یہ بات پولیس کو پہلے دن سے معلوم تھی اس لیے ہم پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’چند دن پہلے جب عتیق نے طیبہ کا رشتہ مانگا تھا تو اسے بتایا گیا تھا کہ ابھی وہ اٹھارہ سال کی نہیں ہوئی۔ اس نے اصرار کیا تھا کہ صرف منگنی کر دی جائے لیکن یہ بات ابھی نہیں مانی گئی تھی۔‘
پولیس نے بالاخر عتیق کو شاملِ تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ عتیق کا وقوعے سے پہلے شکر گڑھ سے گنڈہ سنگھ والا بارڈ پر تبادلہ ہوا تھا اور وہ اِن دنوں چھٹیاں گزارنے لاہور آئے ہوئے تھے۔
تفتیشی افسر نے بتایا کہ ’جب ہم نے عتیق کو حراست میں لیا تو اس نے مزاحمت کی تاہم جب اس کے سامنے شواہد رکھے گئے تو جلد ہی اس نے قتل کا اعتراف کر لیا۔ ملزم کو شُبہ تھا کہ اسے رشتہ نہیں ملے گا اور وہ طیبہ پر شک بھی کرتا تھا جس  کی وجہ سے اس نے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔‘
ملزم کے اقبالِ جرم کے بعد ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کر دی گئیں۔ چودہ روزہ جسمانی ریمانڈ پورا ہونے کے بعد عتیق کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔
ملزم نے اپنی ضمانت کے لیے انسداد دہشتگردی کی عدالت میں درخواست دائر کی جو 5 ستمبر کو رد کر دی گئی ہے۔

شیئر: