سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس نے اپنے کریئر کا آخری فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت کی جانب سے قومی احتساب بیورو(نیب) کے قانون میں کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
جمعے کو سنایا گیا یہ فیصلہ پانچ ستمبر کو محفوظ کیا گیا تھا۔
آخری سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ’شارٹ اینڈ سویٹ‘ فیصلہ دیں گے۔
مزید پڑھیں
-
’نیب ترامیم اس اسمبلی نے منظور کیں جو مکمل ہی نہیں‘Node ID: 725471
اس فیصلے میں چیئرمین تحریک انصاف کی جانب سے نیب ترامیم کے خلاف دائر کی گئی درخواست کو قابل سماعت قرار دیا گیا ہے۔
کیس کی سماعت کے لیے 15 جولائی 2022 کو تین رکنی خصوصی بینچ قائم کیا گیا تھا جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ساتھ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔
دو ایک اکثریت سے سنائے گئے اس فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ شامل ہے۔
کن نمایاں شخصیات کے مقدمات کھلیں گے؟
سیاسی مبصرین اور قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ نیب ترامیم سے جن اہم سیاسی شخصیات کا فائدہ پہنچا تھا، اب ان کے خلاف مقدمات دوبارہ کُھل سکتے ہیں۔
ان شخصیات میں سابق صدر آصف زرداری، سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی، نواز شریف، شہباز شریف، راجہ پرویز اشرف، سابق رکن قومی اسمبلی فرزانہ راجہ اور سابق وزیراعلٰی حمزہ شہباز سمیت کئی نمایاں سیاسی رہنما شامل ہیں۔
نیب قانون ترامیم کے بعد نیب کی جانب سے 137 صفحات پر مبنی ایک فہرست جاری کی گئی تھی جس میں ان تمام شخصیات کا ذکر تھا جنہیں ترامیم سے ریلیف ملا تھا۔

اس فہرست میں سیاست دانوں ، کاروباری شخصیات کے علاوہ کئی سابق سول اور ملٹری بیوروکریسی سے وابستہ افراد کے نام بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ جون 2022 میں شہباز شریف کی قیادت میں قائم اتحادی حکومت نے نیب قوانین میں 27 ترامیم کی منظوری دی تھی لیکن صدر عارف علوی نے اس بل پر دستخط نہیں کیے تھے۔ پھر اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کر لیا گیا تھا۔
اس کیس میں چیئرمین تحریک انصاف کی جانب سے خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے دلائل دیے جبکہ حکومت کی جانب سے مخدوم علی خان وکیل تھے۔
فیصلے کے مطابق 50 کروڑ روپے کی حد تک ریفرنس نیب کے دائرہ کار سے خارج قرار دینے کی ترمیمی شق کو کالعدم قرار دیا گیا ہے اور سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی شقیں بحال رکھی گئی ہیں۔
اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے عوامی عہدوں کے حامل تمام افراد کے مقدمات بحال کر دیے ہیں۔
’مقدمات سات دن میں بحال ہو جائیں گے‘
قومی احتساب بیورو(نیب) کے پراسکیوٹرز عمران شفیق نے اُردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’سپریم کورٹ کے اس تازہ حکم کے بعد وہ تمام مقدمات دوبارہ کھل جائیں گے جو نئی ترامیم کے بعد بند ہو گئے تھے۔ عدالت نے سات دن میں وہ تمام مقدمات بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔‘
عمران شفیق نے بتایا کہ ابھی تک انہوں نے فیصلے کا مسودہ نہیں دیکھا تاہم ’50 کروڑ سے کم کرپشن کے کیسز والی ترمیم کا خاتمہ خوش آئند اقدام ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس ترمیم کے بعد یہ تأثر بنا تھا کہ 50 کروڑ روپے سے کم کرپشن کے مقدمات نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔ اب کوئی سرکاری افسر رشوت یا کسی اور غیرقانونی راستے سے 50 کروڑ سے کچھ کم پیسے بنا لیتا ہے تو وہ کیا اچھا آدمی ہو گا؟‘
’ضرورت اس چیز کی تھی کہ اگر آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق ترمیم کی جائے تو اس میں درجہ بندی کی جائے کہ مذکورہ حد سے کم کے مقدمات کس کے دائرہ اختیار میں ہیں۔سرکاری ٹھیکوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے خلاف کارروائی سے متعلق بھی وضاحت کی جانی چاہیے تھی۔‘
عمران شفیق کے مطابق ’اب نیب کا پہلے والا دائرہ اختیار بحال کر دیا گیا ہے۔ اگر متاثرہ فریق کی نظرثانی کی درخواست کے بعد بھی یہ حکم معطل ہو جاتا ہے تو یہ اور بات ہے۔
’نیب کے غیرضروری اختیارت ختم ہونا ضروری ہیں‘
نیب قوانین میں کون سی ترمیم اہم تھی؟ اس سوال کے جواب میں سابق نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ’اگر اس حکم میں ملزم کی ضمانت سے متعلق شق کو برقرار رکھا گیا ہے تو یہ اچھا ہو گا۔ نیب کے پاس جو غیرضروری اختیارات ہیں، وہ ختم ہونے چاہییں۔ جیسا کہ ضمانت کا حق نہ ملنا، لوگ تین تین برس تک نیب کی جیل میں پڑے رہتے ہیں۔‘
’ایسی قانونی شقیں جن میں ملزم کو ہراساں کرنے کا عنصر ہے، ان کا خاتمہ ضروری ہے۔‘
عمران شفیق نے نئی ترامیم کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ان میں بارِ ثبوت پراسکیوشن پر ڈالا گیا ہے حالانکہ دنیا بھر میں وائٹ کالر کرائمز میں بارِ ثبوت پراسکیوشن اور ملزم پر مشترک طور پر ہوتا ہے۔ ہاں، ابتدائی ثبوت پراسکیوشن نے فراہم کرنا ہوتے ہیں۔‘
’ایسا ہی فیصلہ متوقع تھا‘
سینیئر تجزیہ کار سلمان غنی نے اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہی فیصلہ متوقع تھا۔ سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ جن حالات میں یہ نیب ترامیم کی گئی تھیں کیا وہ مفادِ عامہ میں تھیں؟‘
