سعودی عرب اور پارٹنرز، فلسطین اور اسرائیل کے درمیان بحالیِ امن کے لیے کوشاں
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق سعودی عرب نے یورپی یونین اور مصر اور اردن کے ساتھ فلسطین اسرائیل امن عمل کو بحال کرنے کے لیے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے ایک اجلاس کی مشترکہ صدارت کی جس میں عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابو الغیط ، یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے برائے خارجہ امور اور سلامتی کی پالیسی جوزپ بوریل، اُردن کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ ایمن صفادی، اور مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری بھی شامل تھے۔
اس اجلاس میں تقریباً 70 ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں اور مختلف ممالک سے تقریباً 50 مقررین نے شرکت کی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اجلاس میں ایک امن ’سپورٹنگ پیکج‘ تیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو امن معاہدے تک پہنچنے کے بعد زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل ہوں گے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ 1991 میں میڈرڈ میں امن عمل شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مکمل طور پر قائم نہیں ہے کیونکہ دستخط شدہ معاہدوں بشمول اوسلو معاہدے کا مکمل احترام نہیں کیا گیا ہے۔
’قبضہ جاری ہے اور اس کے ساتھ متعدد پیچیدگیاں اور مشکلات ہیں جو فریقین کو ممکنہ معاہدے سے مزید دور لے جاتی ہیں۔ صورتحال ناقابل برداشت ثابت ہو رہی ہے اور جمود کو قبول کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ امن عمل کو بحال کرنے کی ضرورت کو نظر انداز کرنا نہ تو فریقین کے حق میں ہے اور نہ ہی مشرق وسطیٰ کے حال اور مستقبل کے لیے۔‘
ایس پی اے کی رپورٹ کے مطابق نئی کوشش دو ریاستی حل کے تحفظ کی فوری ضرورت پر مبنی ہے جو چار جون 1967 کی خطوط پر ایک قابل عمل خودمختار آزاد اور متصل فلسطینی ریاست کی تشکیل کو یقینی بناتی ہے۔
بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں، 2002 کے عرب امن اقدام اور 2013 کے یورپی یونین کی امن کے لیے پیشکش کے تحت دو ریاستی حل کے حصول کے لیے ایک بامعنی امن عمل کو زندہ کرنے کی ضرورت پر زیادہ زور نہیں دیا جا سکتا۔ اس کا متبادل مزید بگاڑ ہے جس سے علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو گا۔