لوڈ شیڈنگ کا فائدہ اٹھاتے گینگسٹر پھر فعال، لیاری جرائم کا گڑھ کیسے بنا؟
لوڈ شیڈنگ کا فائدہ اٹھاتے گینگسٹر پھر فعال، لیاری جرائم کا گڑھ کیسے بنا؟
بدھ 20 ستمبر 2023 13:00
زین علی -اردو نیوز، کراچی
نیشنل ایکشن پلان کے تحت لیاری اور دیگر علاقوں میں آپریشن کیا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی
یہ بالی ووڈ کی کسی ایکشن فلم کا منظر نہیں ہے جس میں ایک گینگسٹر شہر پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہو بلکہ یہ ایک حقیقت ہے جو کسی وقت بھی گھناؤنا روپ دھار سکتی ہے، کیوںکہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مختلف گینگز ایک بار پھر فعال ہو چکے ہیں اور شہریوں سے بھتہ وصول کر رہے ہیں۔ شہری بھی خوف کے مارے بھتہ دینے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔
اس پر طرفہ تماشا شہر میں ہونے والی لوڈ شیڈنگ ہے جس کے باعث ان گینگسٹرز کا کام مزید آسان ہو گیا ہے، کیوںکہ وہ تاریکی میں بھتہ وصول کرتے ہیں اور چند ہی لمحوں میں جائے وقوعہ سے فرار ہو جاتے ہیں۔
گذشتہ دنوں کراچی کے علاقے اولڈ سٹی میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا جب اولڈ سٹی ایریا کے تاجروں سے بھتہ وصول کیا گیا مگر پولیس اب تک ان ملزموں کا سراغ نہیں لگا سکی، کیوںکہ واردات کے وقت علاقے میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث گہری تاریکی تھی اور سی سی ٹی وی کیمرے بھی کام نہیں کر رہے تھے، اور ظاہر ہے کہ یہ ملزموں کے لیے واردات انجام دینے کا ایک بہترین موقع تھا۔ شہری بھتہ وصولی کی وارداتوں سے پریشان ہیں اور انہوں نے پولیس سے ان گینگسٹرز کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ نگراں حکومت حال ہی میں سندھ میں نئے آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی کا تقرر عمل میں لائی ہے۔ جنہوں نے گذشتہ دنوں شہر میں امن و امان قائم کرنے کا دعویٰ کیا مگر اگلے روز ہی کراچی کے اولڈ سٹی ایریا میں لیاری گینگ وار کے کارندے ایک بار پھر سرگرم ہو چکے ہیں۔
اولڈ سٹی ایریا کے نیپئر تھانے کی حدود میں گذشتہ ہفتے کی شب بھتہ خوری کا ایک واقعہ پیش آیا، ٹمبر مارکیٹ ایسوسی ایشن کے مطابق کچھ مسلح افراد نے مارکیٹ میں گشت کیا اور دکانداروں سے بھتہ وصول کیا جس کے بارے میں مقامی پولیس سمیت دیگر اعلیٰ حکام کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔
نیپئر پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او سجاد خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’نامعلوم ملزموں نے گذشتہ ہفتے ٹمبر مارکیٹ کے ایک دکاندار سے بھتہ وصول کیا ہے۔‘
ملزموں نے اپنا تعلق لیاری کے تاجو استاد گروپ سے ظاہر کیا اور دکاندار سے پانچ ہزار روپے طلب کیے، پانچ ہزار روپے نہ ہونے پر ملزم دکاندار سے دو ہزار روپے لے گئے۔
پولیس نے بتایا کہ ’ملزموں نے مارکیٹ میں آنے کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا جب مارکیٹ میں بجلی کی فراہمی معطل تھی۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے مارکیٹ اور اطراف میں نصب سی سی ٹی وی کیمرے بند تھے، ملزمان کی آمد اور بھتہ وصولی سمیت کسی بھی عمل کی فوٹیج نہیں بن سکی۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ ’متاثرہ دکاندار کی جانب سے ابھی تک کوئی تحریری درخواست نہیں دی گئی، تاہم وقوعہ کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات کر رہے ہیں۔‘
اولڈ سٹی ایریا میں لیاری گینگ وار کے کارندوں کے سرگرم ہونے پر پولیس کے اعلیٰ افسر بھی حرکت میں آ گئے ہیں۔ ڈی آئی جی ساؤتھ سید اسد رضا نے ایس ایس پی سٹی کے ہمراہ کراچی ٹمبر مرچنٹ مارکیٹ کا دورہ کیا۔ ٹمبر مارکیٹ کے عہدیداراوں نے ڈی آئی جی ساؤتھ کو اولڈ سٹی ایریا میں تاجر برادری کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا۔
ڈی آئی جی ساؤتھ نے جرائم کی روک تھام اور ٹمبر مارکیٹ کے تاجروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ڈیفینس تھانے کی طرز پر تھانہ نیپیئر میں کمانڈ اینڈ کنٹرول روم قائم کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ اس حوالے سے مشترکہ سروے کر کے میپ بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ڈی آئی سید اسد رضا نے اولڈ سٹی ایریا میں پولیس کی کارکردگی کو موثر بنانے کے لیے پولیس کی اضافی نفری داخلی و خارجی راستوں پر تعینات کرنے اور موثر پیٹرولنگ کرنے کے علاوہ تاجر برادری کے ساتھ رابطے اور تعاون بڑھانے کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔
لیاری گینگ وار کیا ہے اور اس کا آغاز کب سے ہوا؟
لیاری جسے کبھی فٹبال، سائیکل، باکسنگ سمیت دیگر کھیل سے محبت کرنے والوں کی زمین کہا جاتا تھا، جرائم کا گڑھ کیسے بنا؟
اس سوال کا جواب لیاری کے باسی یار محمد کسرکندی کچھ یوں دیتے ہیں کہ ’جرائم کے اس سفر کے مرکزی کردار افشانی گلی کے دو بھائی شیر محمد جسے شیرو کہا جاتا تھا اور داد محمد جسے دادل کہا جاتا تھا، کے درمیان گھومتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’دادل، رحمان بلوچ (رحمان ڈکیت) کا باپ تھا اور شیرو اور دادل منشیات کا دھندہ کرتے تھے۔ اپنے کام کو پھیلانے اور طاقت حاصل کرنے کے لیے انہوں نے اپنا گروہ منظم کیا۔ اس گروہ کے مدمقابل اقبال عرف بابو ڈکیت کا گروہ تھا جو لیاری کے علاقے کلری اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں فعال تھا۔ یہاں سے لیاری گینگ وار کا آغاز ہوا۔‘
اسی زمانے میں حاجی لالو بھی اپنے سات بیٹوں کے ساتھ لیاری کے سرحدی علاقوں میں اپنا دھندہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ یہ ایک طاقت ور گینگ تھا اور اس کے بیٹے ارشد پپو اور یاسر عرفات کی موجودگی میں یہ گروہ علاقے میں ایک خاص حیثیت رکھتا تھا۔ لیاری کے علاقوں پاک کالونی، ریکسر لائن جہان آباد اور شیر شاہ قبرستان اس گروہ کی سرگرمیوں کا مرکز تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’طاقت کے حصول اور بے تحاشہ پیسہ حاصل کرنے کے لیے یہ گروہ شہر کے دیگر علاقوں میں بھی سرگرم ہو گئے۔ اور کراچی شہر نے ایک ایسا وقت بھی دیکھا جب لیاری کی یہ گینگ وار لیاری سے نکل کر ملیر، ڈالمیا، شانتی نگر، کورنگی، شیر شاہ، منگھوپیر اور بلدیہ ٹاؤن سمیت شہر کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گئی۔‘
ایک ساتھ کام کرنے والے گینگ کب الگ ہوئے؟
کراچی پولیس کے سابق افسر شعیب علی نے اپنی ملازمت کا ایک طویل عرصہ لیاری میں گزارا ہے۔ انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پیسے اور طاقت کے حصول کے لیے بابو ڈکیت نے دادل رحمان ڈکیت کے باپ کو اپنے راستے سے ہٹایا، دادل کی موت کے بعد حاجی لالو نے رحمان کو پروان چڑھایا۔ اپنی ماں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے والے رحمان نے حاجی لالو کی توقعات سے بڑھ کر کام کیا اور گینگ کو مضبوط کیا۔ بابو ڈکیت کو قتل کر کے رحمان نے اپنے باپ کا بدلہ لیا۔‘
حاجی لالو کے ساتھ کام کرنے والے رحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیت نے جلد ہی اپنی راہیں حاجی لالو کے گروہ سے الگ کر لیں اور ماضی میں ساتھ کام کرنے والا یہ گروہ اب دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔
اور ان دنوں ہی قتل و غارت گری کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہوا۔ دونوں گرہوں نے ایک دوسرے کے قریبی رشتے داروں کو قتل کیا اور ایک دوسرے کو مارنے کی بھی بھرپور کوششیں کیں۔
رحمان نے لیاری میں اپنی ایک نئی شناخت بنائی اور تیزی سے لیاری کے چھوٹے چھوٹے گینگز کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ مشکل حالات میں رحمان کچھ عرصے کے لیے کراچی سے باہر بھی رہا، لیکن ارشد پپو کی پولیس کی جانب سے گرفتاری کے بعد اس نے واپس شہر کا رخ کیا اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے علاوہ اپنے گینگ کو بھی پروان چڑھایا۔
سیاسی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی رفعت سعید کا کہنا ہے کہ ’رحمان نے لیاری کے جرائم کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔‘
ان کے مطابقٟ، پاکستان پیپلز پارٹی جو لیاری کو اپنا گڑھ مانتی ہے وہاں رحمان نے سیاسی لوگوں کو گینگ سے جوڑا اور پھر جب 18 اکتوبر کو بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر ان کے قافلے پر حملہ ہوا تو اس وقت بھی سابق وزیراعظم بے نظیر کو باحفاظت گھر تک پہنچانے میں رحمان اور اس کے لڑکوں نے اہم کردار ادا کیا۔
لیاری گینگ وار کا نامور کردار عزیر بلوچ کون ہے؟
رفعت سعید کا کہنا ہے کہ ’فیض محمد عرف فیضو ماما سندھ بلوچستان کے لیے چلنے والی بسوں کے اڈے پر کام کرتے تھے۔ اس کا شمار رحمان کے قریبی ساتھیوں میں کیا جاتا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’فیض محمد کے ارشد پپو کے لیے کام نہ کرنے پر انہیں قتل کیا گیا۔ فیض محمد عرف فیضو ماما عزیر بلوچ کا باپ تھا۔ اس زمانے میں عزیر جرائم کی دنیا سے دور لیاری کے ایک ہسپتال میں کام کرتا تھا اور لیاری میں فٹبال کا ایک بہترین کھلاڑی تھا۔‘
رفعت سعید نے کہا کہ ’باپ کی موت کے بعد رحمان نے عزیر کو اسی طرح اپنی سرپرستی میں رکھا جیسے کبھی حاجی لالو نے رحمان کو رکھا تھا۔ پھر ایک روز رحمان کی پولیس مقابلے میں موت کے بعد عزیر نے لیاری کا کنڑول سنبھالا اور پیپلز امن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے نہ صرف ماضی میں اپنی حمایتی جماعت پیپلز پارٹی کو الیکشن میں شکست دی بلکہ لیاری میں کام کرنے والے گینگز کو جدید انداز میں آپریٹ کیا۔‘
لیکن یہ معاملہ بھی پیسے اور طاقت کی وجہ سے نہ چل سکا اور جلد ہی عزیر کے ساتھ کام کرنے والے بابا لاڈلہ عزیر سے الگ ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے استاد تاجو، شاہد بکک سمیت دیگر گروہ اپنی اپنی سمت میں کام کرنے لگے۔
لیاری میں غفار ذکری گروپ بھی فعال ہوا اور کچھی ایکشن کمیٹی بھی بنی۔ تاہم نیشنل ایکشن پلان کے بعد لیاری سمیت کراچی میں آپریشن کیا گیا جس کے نتیجے میں ان گینگز کے کارندے گرفتار بھی ہوئے اور پولیس مقابلوں میں مارے بھی گئے۔
عزیر بلوچ سمیت دیگر افراد اس وقت قانون کی گرفت میں ہیں اور شہر میں یہ گینگ اب غیر فعال ہیں۔