Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور میں غیرقانونی کرنسی مارکیٹ بند مگر سودے بازی رُک نہ سکی

چوک یادگار میں موجود تمام غیر رجسٹرڈ کرنسی ڈیلرز کی دکانیں گذشتہ دو ہفتے سے بند پڑی ہیں(فائل فوٹو: سکرین گریب)
یہ پشاور کے چوک یادگار کا منظر ہے۔ جب اچانک وہاں آپ کی گاڑی اور موٹرسائیکل کی رفتار ہلکی ہوتی ہے تو کسی کونے کھدرے سے کوئی نامعلوم فرد آپ کے پاس آئے گا اور آپ سے کرنسی تبدیل کرنے کی بات کرے گا۔
آپ اگر واقعتاً کرنسی تبدیل کروانا چاہتے ہیں تو پھر اور بہت سے لوگ بھی آپ کی جانب متوجہ ہو جائیں گے جو آپ کو دوسروں سے زیادہ ریٹ دینے کی بات کریں گے۔
چوک یادگار پشاور میں حوالہ اور ہنڈی کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اس کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف حال ہی میں 13 ستمبر کو نگران حکومت کے احکامات پر بڑی کارروائی کی گئی ہے۔ 
چوک یادگار میں غیرملکی کرنسی تبدیل کرنے کا کارروبار کرنے والے ایجنٹوں کی ایک بڑی تعداد ہمہ وقت موجود رہتی ہے مگر جب سے ایف آئی آے کی کارروائیاں شروع ہوئی ہیں تو یہ ڈیلرز بھی روپوش ہو گئے ہیں۔ 

ایف آئی اے کی کارروائیاں 

ایف آئی اے خیبرپختونخوا کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ایک ہفتے کے دوران 10 مختلف اوقات میں چھاپے مارے گئے جن میں 18 ملزم گرفتار کیے گئے جب کہ 15 مقدمات بھی درج کیے گئے۔
ان کارروائیوں میں مجموعی طور پر ایک کروڑ 60 لاکھ روپے مالیت کی غیرملکی کرنسی برآمد کی گئی۔
ایف ائی اے حکام کے مطابق غیرقانونی کرنسی ایکسچینج میں ملوث افراد سے ملنے والی رسیدیں اور موبائل فونز بھی ضبط کیے جا چکے ہیں۔
پشاور کے چوک یادگار میں کارروائی کے دوران ایف آئی اے کے ساتھ قانون نافذ کرنے دیگر ادارے بھی ان کارروائیوں میں فعال نظر آئے۔ 
ایف آئی اے نے ان کارروائیوں میں بڑے ڈیلز کو گرفتار کیا جن کا تعلق افغانستان سے ہے۔

مارکیٹ بند ہونے کے باوجود سودے جاری 

چوک یادگار میں موجود تمام غیر رجسٹرڈ کرنسی ڈیلرز کی دکانیں گذشتہ دو ہفتے سے بند پڑی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ چھاپوں کا سلسلہ فی الحال جاری ہے مگر دوسری جانب حوالہ اور ہنڈی کا کاروبار بھی ہو رہا ہے۔
ڈیلرز مارکیٹ بند ہونے کے باوجود شٹر نیچے کر کے دکان کے باہر کھڑے ہو جاتے ہیں یا قریبی فٹ پاتھ پر کھڑے کھڑے سودے کیے جا رہے ہیں۔
حوالہ اور ہنڈی کے کاروبار سے منسلک ایک ڈیلر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’مارکیٹ میں اس وقت ڈیلرز موجود نہیں ہیں۔ وہ سب روپوش ہو چکے ہیں تاہم ان کے پاس کام کرنے والے ملازم اب بھی مارکیٹ میں سودے کر رہے ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’دو ہفتوں سے کاروبار بند پڑا ہے اس لئے لوگ مجبوراً سڑک پر کھڑے ہو کر اپنا کام کر رہے ہیں تاکہ اگر کوئی چھاپہ پڑے تو بھاگنے میں آسانی رہے۔‘
مقامی ڈیلرز کے مطابق مارکیٹ کے باہر کھڑے ہو کر چھوٹا موٹا سودا ہو جاتا ہے لیکن اب کوئی بڑی ڈیل کرنا ممکن نہیں رہا۔ 

مارکیٹ کی ویڈیو بنانے پر ڈیلرز غصہ  

چوک یادگار کی بند مارکیٹ میں غیرقانونی کرنسی کے کاروبار کرنے کی ویڈیو بنانے پر ڈیلرز کی جانب سے کیمرہ مین کو روکا گیا اور دو روز قبل نجی چینل کے ایک کیمرہ مین نے جب ایسی ہی سودے بازی کی ویڈیو بنانے کی کوشش کی تو ڈیلرز نے کیمرہ بند کروانے کی کوشش کی۔

 نگران صوبائی حکومت کا مؤقف 

 نگراں وزیراطلاعات بیرسٹر فیروز جمال شاہ نے موقف اپنایا کہ ’حکومت اپنی رٹ کو بحال رکھے گی جس کے لیے ایسے عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رہے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ڈالر سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد ڈالر کے ریٹ میں کمی آئی ہے اسی طرح حوالہ ہنڈی مارکیٹ کو بند کرنے سے بھی اوپن مارکیٹ میں روپے کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔‘  
نگراں وزیر اطلاعات نے کہا کہ ’ڈالر کی سمگلنگ روکنے کے لیے طورخم بارڈر پر بھی سخت نگرانی ہو رہی ہے اور غیرقانونی کاروبار کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔ کسی نے اگر حکومتی رٹ کو چیلنج کیا تو وہ سلاخوں کے پیچھے نظر آئے گا۔‘ 
دوسری جانب سٹیٹ آف پاکستان نے 25 ستمبر کو ’زمرہ ب‘ اور ’میسرالصحارا‘ ایکسچینج کمپنیوں کے اجازت ناموں کو اسٹیٹ بینک کے قواعد و ضوابط اور ہدایات کی سنگین خلاف ورزیوں کی وجہ سے فوری طور پر معطل کر دیا ہے۔ 
ان ایکسچینج کمپنیوں، ان کے صدر دفتر اور تمام برانچوں کی معطلی کی مدت کے دوران یہ کرنسی کی تبدیلی کا کاروبار نہیں کر سکیں گے۔
 خیال رہے کہ ایف آئی اے خیبرپختونخواہ کی کارروائیوں میں ڈالر کے علاوہ لاکھوں روپے کے سعودی ریال اور دیگر غیرملکی کرنسی بھی برآمد کی جا چکی ہے۔

شیئر: