Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

راولپنڈی سے انڈیا تک، حارث رؤف سپرسٹار کیسے بنے؟

فاسٹ بولر نے پی ایس ایل میں اب تک 53 میچوں میں 64 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ (فوٹو: پی ایس ایل)
حارث رؤف اس وقت صرف پاکستان ہی کے نہیں بلکہ وائٹ بال فارمیٹ میں دنیا کے صف اول کے بولروں میں سے ایک ہیں۔
کرک انفو کے مطابق حارث رؤف نے اپنے کرکٹ کے سفر کا آغاز صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی کی گلیوں سے کیا اور کچھ ہی برسوں میں وہ دنیائے کرکٹ میں شہرت کی بلندیوں میں پہنچ گئے۔
فاسٹ بولر اپنے بچپن میں راولپنڈی کے گلی محلوں میں کھیل کر بڑے ہوئے۔ وہ کبھی ایک گلی میں کھیلتے اور پھر جب وہاں سے اُن کے محلے دار انہیں بھگاتے تو وہ دوسری گلی میں کھیلنے چلے جاتے۔
اسی طرح جب گلیوں میں کھیلنے کا موقع نہ ملتا تو وہ چھتوں پر کرکٹ کھیلنے لگ جاتے۔
پاکستان میں کرکٹر بننا آسان نہیں ہے۔ یہاں جہاں سہولیات کے نہ ہونے کا فقدان ہے وہیں کسی بھی مڈل کلاس لڑکے کو گھر سے بھی اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے رُکاوٹوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔
حارث رؤف کو اُن کے والد کرکٹ کھیلنے سے منع کرتے تھے۔ یہاں تک کہ کرکٹ کھیلنے کے لیے انہیں اپنے والد سے دن میں تین تین مرتبہ مار بھی کھانی پڑ جاتی تھی۔
وہ اپنے گھر سے پڑھائی کا بہانہ کر کے جاتے اور دوست کے ہاں رکھا کرکٹ کا سامان اٹھا کر وہ میدان میں پہنچ جاتے تھے۔
حارث رؤف کے پاس نہ تو پیسے تھے، نہ وسائل تھے اور نہ ہی ذرائع تھے تاہم اُن کے پاس صرف ایک چیز تھی اور وہ تھی ’تیز بولنگ۔‘
انہیں نہ تو انڈر 19 کا کچھ علم تھا اور نہ ہی انڈر 16 کا جبکہ انہوں نے پہلی مرتبہ ’ہارڈ بال کرکٹ‘ بھی اسلام آباد کے ڈائمنڈ کرکٹ کلب میں دیکھی تھی۔
حارث رؤف بنیادی طور پر ’ٹیپ بال‘ کرکٹر تھے۔ یہاں ایک بات یاد رہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کا ہر بڑا بولر کہیں نہ کہیں اپنی زندگی میں ٹیپ بال کرکٹر ہی تھا۔
حارث رؤف اپنے خرچے نکالنے کے لیے ٹیپ بال کرکٹ کھیلتے تھے اور وہ صرف یہ ہی نہیں بلکہ بازار میں نمکو بھی بیچتے تھے۔
زندگی کے دن گزرتے گئے اور اور وہ ٹیپ بال کرکٹ کھیلتے رہے تاہم اس فارمیٹ میں مستقبل کے غیر یقینی ہونے کے باعث گرین شرٹس کے وائٹ بال سپیلشٹ نے ٹیپ بال کرکٹ چھوڑ کر ملازمت کرنے کا فیصلہ کیا تاہم اُن کے ایک دوست نے انہیں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی موجود چیمپیئن فرنچائز لاہور قلندرز کے ہارڈ بال ٹرائل میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا اور وہ اِسی سلسلے میں اپنے گھر والوں کو کچھ بتائے بغیر راولپنڈی سے 200 کلومیٹر دور واقع شہر گجرانوالہ میں ٹرائل دینے پہنچ گئے۔

حارث رؤف کے پاس نہ تو پیسے تھے، نہ وسائل تھے اور نہ ہی ذرائع تھے تاہم اُن کے پاس صرف ایک چیز تھی اور وہ تھی ’تیز بولنگ۔‘ (فوٹو: لاہور قلندرز)

اُس دن حارث رؤف گجرانوالہ ٹرائل دینے نہیں بلکہ اپنی زندگی کے دن بدلنے گئے تھے۔
سینکڑوں کی تعداد میں موجود امیدواروں کی موجودگی میں حارث رؤف ٹرائل دیتے گئے اور ایک ایک مرحلہ پار کرتے گئے اور انہوں نے آخری ٹرائل دیا تو 88 میل فی گھںٹہ کی گیند کروائی جس نے لاہور قلندرز کے کوچ طاہر مغل کو حیرت میں ڈال دیا۔
طاہر مغل نے ٹرائل لینے کے لیے وہیں پر موجود سابق کرکٹر اور ڈائریکٹر لاہور قلندرز عاقب جاوید کو بلایا اور انہیں حارث کی 88 میل فی گھنٹہ گیند کے بارے میں بتایا۔
عاقب جاوید نے حارث رؤف کو دوسری گیند کروانے کا کہا، جسے سپیڈ سٹار نے 90 میل فی گھنٹہ پر کروایا، اس پر عاقب جاوید نے حارث کو تیسری گیند بھی کروانے کا کہا، جسے انہوں نے 92.3 میل فی گھنٹہ پھینکا۔
اِن تین گیندوں نے لاہور قلندرز اور پاکستان کرکٹ کو سپرسٹار دے دیا۔ 

اس ٹرائل نے تو حارث رؤف کی زندگی بدل دی۔ جہاں اُن کے والد انہیں گلی محلوں میں کھیلنے سے روکتے تھے وہیں اب وہ بھی انہیں مکمل سپورٹ کرنے لگ پڑے۔


حارث رؤف اس وقت دنیا کے بہترین وائٹ بال سپیشلسٹ بولروں میں سے ایک ہیں۔ انہیں بولر بنانے میں لاہور قلندرز کے ثمین رانا، عاطف رانا اور عاقب جاوید کا بہت بڑا کردار ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ٹیپ بال سے لاہور قلندرز کے کیمپ کا حصہ بننے اور پروفیشنل کرکٹ میں آنے پر حارث رؤف کو فٹنس سمیت کئی مشکلات آئیں لیکن لاہور قلندرز کی مینیجمنٹ نے اپنے بولر کو ایسا تیار کیا کہ انہوں نے پی ایس ایل میں اپنے پہلے سیزن میں ہی نام پیدا کر لیا۔
حارث رؤف کو لاہور قلندرز نے 2017 میں اپنے پلیئر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ڈی پی) کے تحت آسٹریلیا بھیجا تھا۔ یہ وہی موقع تھا جب حارث رؤف کو نیٹ بولنگ میں وراٹ کوہلی سے ملاقات ہوئی تھی۔
اس کے بعد 2018 میں وہ اسی پروگرام کے تحت لاہور قلندرز کی ٹیم میں ابو ظبی ٹی 20 ٹرافی کھیلنے گئے تھے جس میں اُن کی ٹیم چیمپیئن بنی تھی۔
اِس کے بعد وہ بطور نیٹ بولر پی ایس ایل کے تیسرے سیزن میں لاہور قلندرز کا حصہ بن گئے۔
سنہ 2019 وہ سال تھا جب پنڈی گلیوں میں بڑے ہونے والے حارث رؤف نے یو اے ای میں کھیلے گئے پاکستان سپر لیگ کے سیزن میں لاہور قلندرز کی جانب سے ڈیبیو کیا اور پھر لیگ میں اپنے چوتھے میچ میں ہی انہوں نے 150 کلومیٹر فی گھٹنہ کی گیند کروا دی۔
جب پی ایس ایل میں انہیں پہلا پلیئر آف دی میچ ایوارڈ ملا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔ وہ آنسو شاید حارث کی آںکھوں سے نوید لے کر نکلے تھے کیونکہ پھر صرف ایک ہی سال کے بعد حارث رؤف قومی کرکٹ ٹیم کے لیے بھی ڈیبیو کر گئے۔

فوٹو: اے ایف اپی

وائٹ بال کرکٹ میں حارث رؤف کا سفر کامیابی سے رواں دواں ہے۔ وہ اب تک 62 انٹرنیشنل ٹی 20 میچوں میں 83 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں اور 28 ون ڈے میچوں میں 53 کھلاڑیوں کو پویلین بھیج چکے ہیں۔
فاسٹ بولر نے پی ایس ایل میں اب تک 53 میچوں میں 64 وکٹیں حاصل کی ہیں۔
حارث رؤف اس وقت انڈیا میں اپنی زندگی کا پہلا ون ڈے فارمیٹ کا کرکٹ ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے قومی ٹیم کے ساتھ موجود ہیں۔
 

شیئر: