حارث رؤف اس وقت صرف پاکستان ہی کے نہیں بلکہ وائٹ بال فارمیٹ میں دنیا کے صف اول کے بولروں میں سے ایک ہیں۔
کرک انفو کے مطابق حارث رؤف نے اپنے کرکٹ کے سفر کا آغاز صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی کی گلیوں سے کیا اور کچھ ہی برسوں میں وہ دنیائے کرکٹ میں شہرت کی بلندیوں میں پہنچ گئے۔
فاسٹ بولر اپنے بچپن میں راولپنڈی کے گلی محلوں میں کھیل کر بڑے ہوئے۔ وہ کبھی ایک گلی میں کھیلتے اور پھر جب وہاں سے اُن کے محلے دار انہیں بھگاتے تو وہ دوسری گلی میں کھیلنے چلے جاتے۔
اسی طرح جب گلیوں میں کھیلنے کا موقع نہ ملتا تو وہ چھتوں پر کرکٹ کھیلنے لگ جاتے۔
پاکستان میں کرکٹر بننا آسان نہیں ہے۔ یہاں جہاں سہولیات کے نہ ہونے کا فقدان ہے وہیں کسی بھی مڈل کلاس لڑکے کو گھر سے بھی اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے رُکاوٹوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
کرکٹ کھیل رہے ہیں، جنگ تھوڑی لگی ہوئی ہے؟ حارث رؤفNode ID: 798586
حارث رؤف کو اُن کے والد کرکٹ کھیلنے سے منع کرتے تھے۔ یہاں تک کہ کرکٹ کھیلنے کے لیے انہیں اپنے والد سے دن میں تین تین مرتبہ مار بھی کھانی پڑ جاتی تھی۔
وہ اپنے گھر سے پڑھائی کا بہانہ کر کے جاتے اور دوست کے ہاں رکھا کرکٹ کا سامان اٹھا کر وہ میدان میں پہنچ جاتے تھے۔
حارث رؤف کے پاس نہ تو پیسے تھے، نہ وسائل تھے اور نہ ہی ذرائع تھے تاہم اُن کے پاس صرف ایک چیز تھی اور وہ تھی ’تیز بولنگ۔‘
انہیں نہ تو انڈر 19 کا کچھ علم تھا اور نہ ہی انڈر 16 کا جبکہ انہوں نے پہلی مرتبہ ’ہارڈ بال کرکٹ‘ بھی اسلام آباد کے ڈائمنڈ کرکٹ کلب میں دیکھی تھی۔
حارث رؤف بنیادی طور پر ’ٹیپ بال‘ کرکٹر تھے۔ یہاں ایک بات یاد رہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کا ہر بڑا بولر کہیں نہ کہیں اپنی زندگی میں ٹیپ بال کرکٹر ہی تھا۔
حارث رؤف اپنے خرچے نکالنے کے لیے ٹیپ بال کرکٹ کھیلتے تھے اور وہ صرف یہ ہی نہیں بلکہ بازار میں نمکو بھی بیچتے تھے۔
زندگی کے دن گزرتے گئے اور اور وہ ٹیپ بال کرکٹ کھیلتے رہے تاہم اس فارمیٹ میں مستقبل کے غیر یقینی ہونے کے باعث گرین شرٹس کے وائٹ بال سپیلشٹ نے ٹیپ بال کرکٹ چھوڑ کر ملازمت کرنے کا فیصلہ کیا تاہم اُن کے ایک دوست نے انہیں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی موجود چیمپیئن فرنچائز لاہور قلندرز کے ہارڈ بال ٹرائل میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا اور وہ اِسی سلسلے میں اپنے گھر والوں کو کچھ بتائے بغیر راولپنڈی سے 200 کلومیٹر دور واقع شہر گجرانوالہ میں ٹرائل دینے پہنچ گئے۔
اُس دن حارث رؤف گجرانوالہ ٹرائل دینے نہیں بلکہ اپنی زندگی کے دن بدلنے گئے تھے۔
سینکڑوں کی تعداد میں موجود امیدواروں کی موجودگی میں حارث رؤف ٹرائل دیتے گئے اور ایک ایک مرحلہ پار کرتے گئے اور انہوں نے آخری ٹرائل دیا تو 88 میل فی گھںٹہ کی گیند کروائی جس نے لاہور قلندرز کے کوچ طاہر مغل کو حیرت میں ڈال دیا۔
طاہر مغل نے ٹرائل لینے کے لیے وہیں پر موجود سابق کرکٹر اور ڈائریکٹر لاہور قلندرز عاقب جاوید کو بلایا اور انہیں حارث کی 88 میل فی گھنٹہ گیند کے بارے میں بتایا۔
عاقب جاوید نے حارث رؤف کو دوسری گیند کروانے کا کہا، جسے سپیڈ سٹار نے 90 میل فی گھنٹہ پر کروایا، اس پر عاقب جاوید نے حارث کو تیسری گیند بھی کروانے کا کہا، جسے انہوں نے 92.3 میل فی گھنٹہ پھینکا۔
اِن تین گیندوں نے لاہور قلندرز اور پاکستان کرکٹ کو سپرسٹار دے دیا۔
اس ٹرائل نے تو حارث رؤف کی زندگی بدل دی۔ جہاں اُن کے والد انہیں گلی محلوں میں کھیلنے سے روکتے تھے وہیں اب وہ بھی انہیں مکمل سپورٹ کرنے لگ پڑے۔