Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چمن بارڈر پر جھڑپ میں دو افراد ہلاک، ’افغان مہاجرین کے ساتھ سلوک ناقابل قبول‘

چمن پاک افغان سرحد پر اس سے پہلے ہی پاکستان اور افغانستان کی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہو چکی ہیں (فائل فوٹو: سکرین گریب)
بلوچستان کے ضلع چمن میں پاک افغان سرحدی دروازے پر پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان جھڑپ ہوئی ہے جس کے دوران فائرنگ میں دو افراد ہلاک اور ایک سکیورٹی اہلکار سمیت دو افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
فائرنگ کے واقعے کے بعد سرحد پر صورتحال کشیدہ ہو گئی اور اس کے بعد کچھ وقت کے لیے وہاں آمدروفت معطل ہو گئی۔
چمن کی ضلعی انتظامیہ کے ایک سینیئر آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’بدھ کی شام کو ’باب دوستی گیٹ‘ پر اچانک افغان بارڈر فورس نے پاکستانی حدود کی جانب بلا اشتعال فائرنگ کی جس کی زد میں آ کر پاکستانی حدود میں دو افراد ہلاک جبکہ ایک ایف سی اہلکار اور ایک بچہ زخمی ہو گئے۔‘
ان کے مطابق ’ہلاک ہونے والوں میں ایک 70 سالہ شخص اور 12 سالہ بچہ شامل ہیں۔‘

پاکستان میں افغان مہاجرین کے ساتھ سلوک ناقابل قبول ہے: ذبیح اللہ مجاہد

دوسری جانب پاکستان کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو ملک سے ایک ماہ کے اندر نکلنے کی ڈیڈلائن پر ردعمل میں افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان میں افغان مہاجرین کے ساتھ ’ناروا سلوک‘ کو ناقابل قبول قرار دیا۔
 ذبیح اللہ مجاہد ’ایکس‘ اکاؤنٹ (سابقہ ٹوئٹر) لکھا ہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے سلسلے میں اپنے لائحہ عمل پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق پاکستان کے سیکیورٹی مسائل میں افغان مہاجرین کا کوئی ہاتھ نہیں ہے اور جب تک افغان مہاجرین رضاکارانہ اور پرامن طریقے سے پاکستان سے  نکلیں گے تب تک پاکستان کو صبر سے کام لینا چاہیے۔
قبل ازیں کمشنر کوئٹہ حمزہ شفقات نے سرحد پر فائرنگ کے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ ’افغان باشندوں کے خلاف کارروائیوں کے بعد  ایسے ردعمل کی توقع تھی-‘
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چمن کے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ ’ایک شخص کی لاش اور ایک بچے کو زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا۔ بچے کی حالت خطرے سے باہر ہے۔‘
مقتول کی شناخت عبدالمحمد کے نام سے ہوئی ہے جو چمن کے علاقے گھوڑا ہسپتال کے رہائشی تھے۔
ضلعی انتظامیہ کے افسر کے مطابق افغان طالبان کی بلا اشتعال فائرنگ کے باوجود پاکستانی فورسز نے کوئی جوابی کارروائی نہیں کی۔ اس دوران کچھ دیر کے لئے سرحد پیدل آمدروفت کے لیے بھی بند رہی۔ بعد ازاں دوبارہ آمدروفت بحال ہو گئی تام سرحد پر کشیدگی برقرار ہے۔ پاکستانی حکام نے افغان حکومت سے معاملے پر احتجاج ریکارڈ کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
چمن بارڈر پر تعینات ایک سکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے اعلان سے تین دن قبل ہی پاک افغان چمن سرحد پر سکیورٹی کے انتظامات انتہائی سخت کر دیے گئے تھے۔‘
’سول سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی سرحدی گیٹ تک رسائی بھی روک دی گئی ہے اور اب صرف ایف سی، پاک فوج اور حساس اداروں کے اہلکار کام کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پہلے چمن سے متصل افغان سرحدی صوبے قندھار کے رہائشیوں کو افغان شناختی دستاویز ’تذکرہ‘ پر آمدروفت کی اجازت تھی تاہم اب تین دنوں سے اس سلسلے میں سختی کی جا رہی ہے اور صرف شدید بیمار افغان باشندوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دی جا رہی ہے۔‘
سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ ’پاکستانی فورسز کی سختی پر سرحد پر تعینات افغان اہلکار مشتعل تھے اور جھگڑا بھی دستاویزات کے معاملے پر ہوا ہے۔‘
چمن پاک افغان سرحد پر اس سے قبل بھی پاکستان اور افغانستان کی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہو چکی ہیں اور نئی افغان حکومت کے آنے کے بعد ایسی کئی جھڑپیں ہوئیں۔ دسمبر2022ء میں بھی جھڑپوں کے نتیجے میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوئے تھے۔

فائرنگ کرنے والے مجرم کو پاکستان کے حوالے کیا جائے: سرفراز بگٹی

نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ پاک افغان سرحد پر فائرنگ کا واقعہ قابل مذمت ہے، افغان حکومت سے مطالبہ ہے کہ فائرنگ کرنے والے مجرم کو پاکستان کے حوالے کیا جائے تا کہ اس کیس کو پاکستان کی عدالت میں چلا کر کیفرکردارتک پہنچایا جاسکے۔
نگران وزرا کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سرفراز بگٹی نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں ، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم ہی جیتیں گے۔
نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ آج چمن سرحد پر افغانستان کی طرف سے معصوم شہریوں پر فائرنگ کی گئی ہے جس کے نتیجے میں ایک 12 سالہ بچے سمیت دو افراد شہید اور دو زخمی ہوئے ہیں۔

شیئر: