پاکستانی شناخت کے خواہشمند بنگالی اور برمی بھی افغانوں کی طرح ملک بدر ہوں گے؟
پاکستانی شناخت کے خواہشمند بنگالی اور برمی بھی افغانوں کی طرح ملک بدر ہوں گے؟
بدھ 4 اکتوبر 2023 13:57
زین علی -اردو نیوز، کراچی
نگراں وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ ’اس وقت 17 لاکھ 30 ہزار غیرملکی ملک میں غیرقانونی طور پر آباد ہیں۔‘ (فوٹو: پی آئی ڈی)
حکومت پاکستان کی جانب سے ملک میں غیرقانونی طور پر آباد غیر ملکیوں کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں اور وہ اس ایک ماہ میں اپنے ملک واپس نہ گئے تو حکومت ان کو ان کے ملکوں میں ڈی پورٹ کر دے گی۔
وفاقی وزیر داخلہ کے اس اعلان نے افغان شہریوں کی مشکلات میں ہی اضافہ نہیں کیا بلکہ بنگالی، برمی اور ایرانی شہری بھی اس اعلان پر پریشان دکھائی دے رہے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی ہیں اور کئی دہائیوں سے اسی دھرتی پر آباد ہیں یا انہوں نے آزادی کے بعد پاکستان ہجرت کی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں افغان شہریوں سمیت دیگر ملکوں کے 17 لاکھ سے زیادہ غیر ملکی آباد ہیں جن کے خلاف حکومت نے کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا ہے۔
کراچی پولیس کے ترجمان ریحان شاہد کا کہنا ہے کہ ’شہر میں غیرقانونی طور پر رہنے والے افراد کے خلاف بلاامتیاز کریک ڈاون جاری ہے۔ شہر کے تمام اضلاع میں پولیس دیگر اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے اور گرفتار افراد کے خلاف فارن ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔‘
مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد پاکستان میں آباد رہنے والے بنگالی اب حکومت سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا؟
کورنگی ڈیڑھ نمبر بنگالی پاڑہ کے رہائشی 70 سالہ عبدالمجیب (فرضی نام) نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا تعلق ایک بنگالی گھرانے سے ہے، لیکن وہ بنگلہ دیشی نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں ہی پیدا ہوئے اور وہ پاکستانی ہی ہیں۔ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے پر ان کے خاندان نے پاکستان کا ساتھ دیا اور اپنی مرضی سے پاکستان میں ہی قیام کیا۔ ابتدائی طور پر حکومت پاکستان نے ان کی حیثیت کو قبول کیا اور انہیں شناختی کارڈ سمیت دیگر دستاویزات فراہم بھی کیں۔ لیکن وہ 2013 میں جب اپنے شناختی کارڈ کی مدت پوری ہونے کے بعد دوبارہ کارڈ بنوانے گئے تو نادرا نے دستاویزات پوری نہ ہونے کا عذر تراشتے ہوئے ان کا کارڈ بلاک کردیا جو اب تک بحال نہیں ہوسکا۔
عبد المجیب کا کہنا ہے کہ ’نادرا والے کہتے ہیں کہ ہم بنگالی ہیں اور ہمارا شناختی کارڈ نہیں بن سکتا اور یہ کہ ہم نئی پالیسی کے تحت ہی اپنی دستاویزات بنوائیں۔‘
کراچی کے علاقے مچھر کالونی کی رہائشی 19 سالہ شمع بی بی بھی حکومت کے اس فیصلے سے پریشان ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں ہی پیدا ہوئی ہیں اور ان کا ملک پاکستان ہے۔
’ہم پاکستانی ہیں، یہ بات ہم تو تسلیم کرتے ہیں، لیکن دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ہماری بات ماننے کے لیے تیار نہیں، اب سمجھ نہیں آتا کہ حکام کو یہ یقین کس طرح دلایا جائے کہ ہم پاکستانی ہیں؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم بھی حاصل نہیں کر سکی۔ ایک فیکٹری میں نوکری ملی ہے، کچھ پیسے مل جاتے ہیں تو گزر بسر ہو رہا ہے، اب اگر چھاپے اور گرفتاریاں ہوں گی تو ہمارا کیا ہوگا؟ یہ سوچ کر کل سے گھر میں عجیب سا ماحول بن گیا ہے۔‘
پاکستان میں بسنے والے صرف بنگالی ہی نہیں بلکہ برمی اور ایرانی شہری بھی حکومت کے اس فیصلے کی زد میں آئے ہیں۔
کراچی کے علاقے کورنگی میں واقع ایک علاقے ارکان آباد کو منی برما بھی کہا جاتا ہے۔ برما سے پاکستان ہجرت کر کے آنے والوں نے اس علاقے کا نام برما (میانمار) کے علاقے ارکان آباد کے نام سے ہی منسوب کر رکھا ہے۔ اس علاقے میں کئی دہائیوں سے برمی آباد ہیں۔ شکل و صورت اور رہن سہن میں یہ بنگالی ہی لگتے ہیں اور کراچی میں رہنے والے اکثر برمیوں کو بنگالی ہی تصور کیا جاتا ہے۔
ارکان آباد کورنگی کی کچی آبادی ہے، کورنگی کے ساحل سے قریب یہ اونچائی پر آباد ایک پتھریلا علاقہ ہے۔ ارکان آباد میں کچی پکی گلیاں ہیں، سیوریج کا خراب نظام اور جگہ جگہ گندگی اور کچرے کے ڈھیر ہیں۔
ارکان آباد کے رہائشی اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کے لیے میڈیا پر بات کرنے کو تیار نہ تھے۔ علاقے میں کئی افراد اپنی مشکلات کو اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر بیان کرنا چاہتے ہیں۔
ارکان آباد کے رہائشی زبیر الدین (فرضی نام) نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بزرگوں نے قیام پاکستان کے بعد برما سے پاکستان ہجرت کی تھی۔ والدین کے پاس پرانے شناختی کارڈ موجود تھے اور بعدازاں نادرا کا شناختی کارڈ بھی موجود تھا۔ لیکن کارڈ کی تجدید پر ان کے والدین کا کارڈ بلاک کردیا گیا جو تاحال بلاک ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’قومی شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ارکان آباد کے رہائشی شدید مشکلات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے بہتر روزگار کے مواقع کے علاوہ صحت و تعلیم سمیت کوئی بھی بنیادی سہولت دستیاب نہیں۔ ہمارے بچے پڑھنا چاہتے ہیں، لیکن شناختی دستاویز نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلہ نہیں لے سکتے۔ اسی طرح علاج معالجے کی سہولیات تک رسائی میں بھی یہاں کے رہنے والوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘
حکومت اب یہ کہہ رہی ہے کہ ’غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جائے گا تو یہاں رہنے والوں کو پریشان کیا جائے گا، ہم نے تو پاکستان میں آنکھ کھولی ہے، اب ہم کہاں جائیں گے، اس بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے۔‘
کراچی کے علاقے اولڈ سٹی لیاری میں ایرانی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ اس علاقے میں کئی افراد ایرانی بلوچ ہیں۔ بیشتر افراد کے پاس پاکستانی شہریت ہے جب کہ بہت سے ایسے بھی ہیں جو بلوچستان اور ایران کے سرحدی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستانی شہری نہیں ہیں۔ ان کا رہن سہن، رشتے داریاں اور کاروبار ایران میں ہے۔ ان کا شمار بھی ایسے افراد میں ہوتا ہے جو پاکستانی شہریت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ 3 اکتوبر کو پاکستان کے نگراں وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو ملک چھوڑنے کے لیے یکم نومبر کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے، جس کے بعد وطن عزیز میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیرملکیوں کو ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔‘
نگراں وزیر داخلہ نے اسی پریس کانفرنس میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس وقت 17 لاکھ 30 ہزار غیرملکی ملک میں غیرقانونی طور پر آباد ہیں۔‘