وقت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ’’ گزر جاتا ہے‘‘ اور اس کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ’’ گزر جاتا ہے‘‘
* * * شہزاد اعظم ۔ جدہ* * *
وقت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ’’ گزر جاتا ہے‘‘ اور اس کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ’’ گزر جاتا ہے‘‘۔وقت سے مجھے شکوہ ہے کہ جب شہروزاور میں ہم قدم تھے تو یہ رُکا کیوں نہیں، آج شہروزمیری حیات کے شریک نہیں تو میں وقت کی شکر گزار ہوں کہ یہ رُکتا نہیں۔ میںمناہل کے ساتھ اس کی باتوں میں اور اس کے کاموں میں مصروف رہتی ہوں۔ مناہل صرف میری بیٹی ہی نہیں بلکہ روئے زمین پروہ میری سب سے پیاری سہیلی ہے ،میں جب اپنا چہرہ آئینے میں دیکھتی ہوں تو مجھے شہروز کی نفرت یاد آتی ہے ۔ میں سوچتی ہوں کہ یہی وہ نین نقش ہیں جنہیں شہروز نے ٹھکرا دیا ہے پھر جب میں مناہل کو دیکھتی ہوں تو مجھے شہروز کی محبت یاد آتی ہے ۔
وہ بالکل اپنے باپ کی طرح مجھ سے روٹھتی ہے اور میرے منانے پر فوراً مان جاتی ہے۔ میں اس سے روٹھنے کا سبب پوچھتی ہوں تووہی شہروز والا جواب دیتی ہے کہ ’’مجھے آپ کا منانا اتنا اچھا لگتا ہے کہ بار بار روٹھنے کو جی چاہتا ہے۔‘‘ تنہائی مجھے کبھی پسند نہیں آئی۔ شہروز کے زندگی میں آنے کے بعد تنہائی سے میری دشمنی ہوگئی تھی پھر ایک روز اچانک میرے ہم سفر نے مجھے اس دشمن کے حوالے کر کے اپنی راہیں جدا کرلیں۔ آج یہ تنہائی مجھے اپنی سوکن کی طرح لگتی ہے۔روز ملتی ہے اورشہروزنامہ چھیڑ دیتی ہے۔ بچپن میں امی جان کو اکثر یہ کہتے سنا کرتی تھی کہ کھلی آنکھوں خواب دیکھنے والوں کی نیندیں اُڑ جاتی ہیں پھر وہ آنکھیں بند کر کے خواب دیکھنے کے قابل نہیں رہتے۔یہ بات اس وقت تو سمجھ نہیں آتی تھی مگرآج میرا وجود امی جان کے کہے ہوئے اُس جملے کی تجسیم دکھائی دیتا ہے ۔ میں ہمیشہ سے آنکھیں بند کر کے خواب دیکھا کرتی تھی پھر شہروز میر زندگی میں آئے، انہوں نے مجھے کھلی آنکھوں خواب دکھائے،تعبیر کی دنیا سے آشنا کیا ، میںپلکیں جھپکنا بھول گئی۔وقت گزرتا گیا، ایک روز میرے دل کے آنگن میں معصوم صدابلند ہوئی۔ یہ مناہل تھی ، میری ننھی سہیلی، اس نے مجھے ’’تکمیلِ ذات‘‘ کا احساس دلایا۔
زندگی کا سفر تمام رعنائیوں کے ساتھ جاری تھا، ہماری محبت کی ریل فراٹے بھرتی چلی جا رہی تھی کہ اچانک یہ ایک اندھیر اورسنسان اسٹیشن پر جا کر ٹھہر گئی۔ شہروز نے میری زلف کی زنجیر کاٹ ڈالی ، کسی اور کے ہم قدم ہو گئے۔ میں اس سنسان اور انجان اسٹیشن پر ایک ایسی بے یار و مدد گار بوگی کی طرح کھڑی رہ گئی جو انجن کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتی تھی۔ نیند تو مجھ سے آج بھی شہروز کی طرح دور ہے۔ جب میری ننھی سہیلی مناہل سو جاتی ہے تو تنہائی اک سوکن کی طرح میرے سامنے آبیٹھتی ہے۔ میری ہر بات اور ہر سوچ کو شہروز سے معنون کر دیتی ہے۔میں آئینے کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی ، اپنے آپ کو غور سے دیکھا تو میرے وجود نے مجھ سے سوال کیا کہ آخر نائلہ میں ایسی کیا بات ہے جس کی خاطر شہروز نے مجھے گلستانِ محبت سے نکال کر ریگستانِ نفرت میں دھکیل دیا۔یہ آنکھیں دیکھو جیسے مرصع غزل، یہ شہروز نے ہی تو کہا تھا۔ اپنی زلفیں دیکھوجیسے آسمان کی وسعتوں میں ٹھنڈی چھاؤں بکھیرتی گھنگھور گھٹا، یہ شہروز خود ہی کہتے تھے ، اپنی قامت دیکھو جیسے تیز ہوا میں جھومتا ہوا سرو، یہ میں نے نہیں کہا، شہروز کہا کرتے تھے۔ انہوں نے ہی کہا تھا کہ ثمرہ ! پتا ہے انسان ہوا کے بغیر چند لمحے بھی زندہ نہیں رہ سکتا ، ہوا نظر نہیں آتی مگر زندگی کا باعث بن کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے ،جانتی ہو،تمہاری محبت بھی میرے لئے ’’ہوا ‘‘جیسی ہے، جس کے بغیر میں زندہ نہیں رہ سکتا، یہ دکھائی نہیں دیتی مگر میری زندگی کا باعث بن کر اپنے وجود کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ پھر آج یہ غزل، یہ گھٹا، یہ سرو، یہ ہوا، سب بے معنی ہوگئے