اس اشتہار میں خبردار کیا گیا ہے کہ تل ابیب اپنے شہریوں کو ’وحشی دہشت گردوں‘ سے بچانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔‘
اس اشتہار سے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چِھڑ گئی ہے، کچھ صارفین نے اسے ’پروپیگنڈا‘ قرار دے رہے ہیں جبکہ بعض اسے اسرائیل کے دفاع کا حق قرار دے رہے ہیں۔
ایک سوشل میڈیا صارف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’اسرائیل نے خونی حملوں کے بعد فلسطین کے خلاف عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے عجیب قسم کا پروپیگنڈا شروع کر دیا ہے۔‘
کچھ سوشل میڈیا صارفین نے اسرائیلی وزارت خارجہ کے اس اشتہار کی منظوری دینے پر یوٹیوب کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
انہوں نے اپنے موقف کے حق میں یہ دلیل دی کہ ‘اشتہار میں موجود ویڈیو کلِپس نفرت انگیزی اور تشدد سے متعلق یوٹیوب کی پالیسی کی خلاف ورزی کے زُمرے میں آتے ہیں۔‘
ایک صارف نے کا کہنا تھا کہ ’اس اشتہار کے لیے ریاست اسرائیل کی طرف سے فنڈ جاری کیا گیا تھا اور واضح طور پر مغرب کے سامنے جنگ کا دائرہ کار وسیع کرنے کے لیے ایک جواز پیش کرنا ہے۔‘
ایک اور سوشل میڈیا صارف نے دریافت کیا کہ ’اس اشتہار پر پابندی کیوں نہیں لگ رہی؟‘
یاد رہے کہ سنیچر کو فلسطین کے عسکریت پسند گروپ ’حماس‘ کی جانب سے اسرائیل پر اچانک حملہ کیا گیا جس سے علاقے میں شدید جنگ چھڑ چکی ہے۔
منگل کو اسرائیلی فوج نے ملک کے جنوبی حصے پر بڑے پیمانے پر کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ’حماس کے 1500 عسکریت پسندوں کی لاشیں ملی ہیں۔‘
اسرائیل نے اس سے قبل بتایا تھا کہ ’حماس کے حملوں میں اس کے 900 فوجی اور عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ فلسطینی حکام نے غزہ میں 700 ہلاکتوں کی تصدیق کی تھی۔
حماس نے اس تنازع کو بڑھانے کا عندیہ دیتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ ’اگر حملوں میں شہریوں کو وارننگ کے بغیر نشانہ بنایا گیا تو اسرائیلی قیدیوں کو مار دیا جائے گا۔‘
اسرائیل نے کہا ہے کہ ’غزہ میں حماس اور دیگر عسکریت پسند گروپوں نے اس کے 150 سے زائد فوجیوں اور شہریوں کو یرغمال بنایا ہے۔‘