Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انتخابات قریب آنے کے باوجود بلوچستان میں روایتی سیاسی گہما گہمی کیوں نہیں ہے؟

تجزیہ کار سیاسی گہما گہمی میں کمی کی وجہ الیکشن شیڈول کا اعلان نہ ہونا سمجھتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انتخابات قریب آنے کے باوجود پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں پہلے کی طرح سیاسی سرگرمیاں اور گہما گہمی دکھائی نہیں دے رہی۔
صوبے میں متحرک سیاسی قوم پرست اور مذہبی جماعتیں مختلف مسائل پر احتجاج، مظاہروں اور ریلیوں کا انعقاد تو کر رہی ہیں لیکن کسی جماعت نے انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز کیا اور نہ ہی حالیہ دنوں میں کوئی بڑا جلسہ ہوا۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ’پہلے کی طرح سیاسی سرگرمیاں اور گہما گہمی نظر نہیں آرہی۔‘
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’ان کی جماعت نیشنل پارٹی روزانہ کی بنیاد پر سرگرمیاں کر رہی ہے اور عوام کو متحرک کر رہی ہے۔‘
سینیئر صحافی عبدالخالق رِند سیاسی گہما گہمی میں کمی کی وجہ الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن کے لیے واضح تاریخ اور شیڈول کا اعلان نہ ہونا سمجھتے ہیں۔ ان کے بقول ’انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی سیاسی سرگرمیاں تیز ہوجائیں گی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’انتخابات کا جنوری میں انعقاد بھی یقینی نہیں ہے، اس لیے سیاسی جماعتیں قبل از وقت اپنی توانائیاں اور وسائل خرچ کرنے میں احتیاط کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔‘
’آج کل جلسے جلوس کرنا آسان نہیں اس پر بہت اخراجات آتے ہیں۔اگر سیاسی جماعتیں ابھی سے کارکنوں کو متحرک اور جلسے جلوس کرنا شروع کر دیں اور پھر پتا چلے کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوگئے ہیں تو ان کے لیے دوبارہ اس سارے عمل کو دہرانا بہت مشکل ہوگا۔‘
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سیکریٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال بھی عبدالخالق رِند کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت سیاسی گہما گہمی نہ ہونے کی وجہ انتخابی شیڈول کا اعلان نہ ہونا ہے۔‘
ان کے بقول ’پشتون علاقوں میں انتخابی سرگرمیوں میں کمی کی ایک وجہ سرد موسم بھی ہے۔ زیادہ تر پشتون علاقوں میں سخت سردی پڑتی ہے اور جنوری سب سے سرد اور سخت مہینہ سمجھا جاتا ہے۔‘

تجزیہ کاروں کے خیال میں پشتون علاقوں میں انتخابی سرگرمیوں میں کمی کی ایک وجہ سرد موسم ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

’جب لوگوں کی آمد و رفت اور تمام سرگرمیاں محدود ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں اگر جنوری میں الیکشن ہوتے بھی ہیں تو اس موسم کا سیاسی سرگرمیوں پر اثر پڑے گا۔‘
بلوچستان میں مرکزی جماعتیں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کی طرح عوام میں مضبوط جڑیں نہیں رکھتیں۔ اس لیے ان مرکزی جماعتوں کی قیادت کی انتخابات کے دوران بھی بلوچستان پر توجہ کم ہوتی ہے۔
تجزیہ کاروں کی رائے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہمیشہ کی طرح اس بار بھی الیکٹ ایبلز پر انحصار کرے گی اور بلوچستان میں جلسے جلوسوں پر زیادہ توانائیاں خرچ نہیں کرے گی۔
بلوچستان میں موجود پارٹیاں جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی عوام میں جڑی رکھتی ہیں۔
تجزیہ کار عبدالخالق رِند کہتے ہیں کہ ’یہ قوم پرست اور مذہبی جماعتیں اپنے اپنے طور پر مختلف مسائل پر احتجاج کر رہے ہیں اور سیاسی سرگرمیاں بھی چل رہی ہیں لیکن کسی نے باقاعدہ انتخابی مہم کا آغاز نہیں کیا۔‘

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے مطابق بلوچستان میں سکیورٹی مسائل کے باعث تمام جماعتوں کو خطرات کا سامنا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

پشتونخوا میپ کے رہنما عبدالرحیم زیارتوال کے مطابق ’انتخابی شیڈول کے اعلان سے قبل ہر جماعت اپنی حد تک کارکنوں کو متحرک کرنے کوشش کر رہی ہے۔ اس وقت زیادہ تر سیاسی جماعتیں اپنی تنظیم سازی اور اندرونی طور پر تیاریوں میں لگی ہوئی ہیں۔‘
بلوچستان گذشتہ دو دہائیوں سے شورش کا شکار ہے۔ کالعدم مذہبی اور علیحدگی پسند تنظیمیں ماضی میں بھی انتخابی سرگرمیوں کے دوران حملے کر چکی ہیں۔
جولائی 2018 میں انتخابات سے چند روز قبل مستونگ میں ایک انتخابی جلسے کے دوران بم دھماکے میں نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت 130 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
حالیہ دنوں میں مستونگ میں 12 ربیع الاول کے جلوس کے دوران خودکش حملے میں 60 سے زائد افراد کی جانیں چلی گئیں۔
محکمہ داخلہ بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق ’گذشتہ سال کی نسبت 2023 میں ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں سے 52 فیصد ہلاکتیں زیادہ ہو چکی ہیں۔ سکیورٹی کی یہ صورت حال بھی سیاسی جماعتوں کے لیے پریشان کُن ثابت ہو رہی ہے۔‘

 بلوچستان میں 2022 کی نسبت 2023 میں ٹارگٹ کلنگ اور دھماکوں سے 52 فیصد ہلاکتیں زیادہ ہوئیں۔ فوٹو: روئٹرز

کیا سکیورٹی کی صورت حال سیاسی جمود کی وجہ ہے؟
عبدالخالق رِند اس تاثر کی نفی کرتے ہیں کہ سکیورٹی کی صورت حال سیاسی جمود کی وجہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’سکیورٹی کے مسائل بلوچستان میں پہلے بھی رہے ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔‘
’اِس وقت 2008 اور 2013 کی طرح صورت حال نہیں اور سکیورٹی کا سیاسی اور انتخابی مہم پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔‘
سابق وزیراعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے مطابق ’بلوچستان تنازعات کا شکار علاقہ ہے اس لیے یہاں سکیورٹی کے مسائل موجود ہیں، نہ صرف نیشنل پارٹی بلکہ تمام جماعتوں کو خطرات کا سامنا ہے۔ مستونگ کا واقعہ اس کی ایک مثال ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں بھی ہم نے مشکل صورت حال میں انتخابی مہم چلائی، اس بار بھی تمام مشکلات کے باوجود جہاں تک ہمارا بس چلے گا اپنی مہم چلائیں گے۔‘
پشتونخوا میپ کے رہنما رحیم زیارتوال کہتے ہیں کہ ’تمام سیاسی جماعتوں کو سکیورٹی کی صورت حال سے متعلق خدشات ہیں اور انہیں دُور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔‘

شیئر: