پنجاب میں ہر گھنٹے ڈکیتی کی 9 وارداتیں، کیا یہ غیر معمولی ہے؟
پنجاب میں ہر گھنٹے ڈکیتی کی 9 وارداتیں، کیا یہ غیر معمولی ہے؟
ہفتہ 21 اکتوبر 2023 7:12
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پولیس کے مطابق جنوری سے لے کر ستمبر تک پورے صوبے میں 62 ہزار 514 ڈکیتی کی وارداتیں ہوئیں۔ (فائل فوٹو)
لاہور کے علاقے اچھرہ میں دوپہر کے 12 بجے کے قریب ایک گھر کے باہر دو مرد اور ایک خاتون ٹہل رہے تھے۔ تھوڑی دیر تک ادھر ادھر سے حالات کا جائزہ لینے کے بعد خاتون گھر کے اندر داخل ہوئی اور اس کے ساتھ دو مرد بھی اسی گھر میں گھس گئے۔ گھر میں داخل ہوتے ہیں انہوں نے اپنے کپڑوں میں چھپایا ہوا اسلحہ نکال لیا۔ یہ گزشتہ ہفتے 16 اکتوبر کا واقعہ ہے۔
اس گھر کے صحن میں سوئے ہوئے سید محمود عباس اور ان کی اہلیہ کو اس وقت خبر ہوئی جب ان پر بندوقیں تان لی گئیں۔ شور سن کر سید محمود نیند سے ہڑبڑا کر اٹھے تو ان کو ایک غیر متوقع صورت حال کا سامنا تھا۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔
انہوں نے بتایا ’میں حواس باختہ ہو گیا۔ اور میرا دماغ اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے بھی کافی دیر قاصر رہا۔ ان لوگوں نے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے تھے۔ ایک شخص نے کڑک دار آواز میں کہا کہ کہاں ہیں پیسے؟ میں نے بس اتنا کہا کہ کون سے پیسے اس نے مجھ پر ایک طرح سے حملہ کر دیا۔‘
محمود عباس کو پتا چل چکا تھا کہ اب کسی بھی طرح کا مقابلہ بے سود ہے لیکن پھر بھی وہ آخری وقت تک کوشش کرتے رہے کہ ان کی زندگی کی جمع پونجی بچ جائے۔
’میں کرائے کے گھر میں رہتا ہوں۔ اپنی زندگی کی جمع پونجی سے میں نے ایک چھوٹا سا گھر لیا تھا اور حال ہی میں اسے بیچا تھا تاکہ تھوڑے بڑے گھر کے لیے پیسے بنا سکوں میرے گھر میں اس وقت ستر لاکھ روپے نقدی تھی اور وہی پیسے پڑے ہوئے تھے۔ ڈاکوؤں کو علم تھا۔ کافی دیر مزاحمت کے بعد میں نے وہ پیسے ان کے حوالے کر ددیے اور میرا دل ڈوب گیا۔‘
پولیس نے سید محمود عباس کی درخواست پر تھانہ اچھرہ میں مقدمہ درج کر لیا ہے اور پولیس کے بقول وہ ملزمان کا کھوج بھی لگا رہی ہے تاہم ابھی تک اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
لاہور ہی کے اقبال ٹاؤن کے نرگس بلاک کے ایک گھر میں خالد نامی شہری کے گھر بھی ایسے ہی دو ڈاکو گھسے۔ درج ایف آئی آر کے مطابق دونوں نے ہیلمٹ پہن رکھے تھے، چند دن بعد ان کی بیٹی کی شادی تھی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’دونوں ڈاکوؤں نے ہم میاں بیوی کو باندھ دیا اور بندوق کے بٹوں سے تشدد کیا اور میری بیٹی کا زیور اور نقدی کوئی لگ بھگ ایک کروڑ روپے لے کر فرار ہو گئے۔‘
جوہر ٹاؤن کے علاقے میں احمد شاہد اپنے بچوں کو پیدل سکول چھوڑ کر گھر واپس آ رہے تھے کہ اچانک ان کے پاس ایک موٹر سائیکل رکی اور سوار افراد نے ان کی طرف پستول سیدھی کر لی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میرے اندر خوف کی ایک لہر دوڑ گئی۔ انہوں نے میرا موبائل پرس اور نقدی جو کچھ تھا آناً فاناً میرے سے لیا اور غائب ہو گئے میرے حواس بڑی دیر بعد بحال ہوئے۔ ‘
پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے مختلف علاقوں کے یہ واقعات اب ایک طرح سے معمول کا حصہ ہیں۔ اسلام پورہ کے علاقے میں عارف نامی شہری بینک سے 40 لاکھ روپے نکلوا کر جا رہا تھا جب انہیں ڈاکوؤں نے روک لیا۔
ان کے مطابقق ’مجھے بینک سے نکلتے ہی دھڑکا لگا ہوا تھا اور جب اچانک ایک موٹر سائیکل میرے پاس آئی تو پستول دیکھ کر مجھے رکنا پڑا۔ لیکن میں اپنی جمع پونجی ڈاکوؤں کو دینے کے لیے تیار نہیں تھا ایک نے فائر کر دیا۔ میری ہلکی پھلکی مزاحمت کے جواب میں اس فائر نے مجھے حواس باختہ کر دیا۔ مجھے تو پتا بھی نہیں چلا کہ مجھے فائر لگ چکا ہے جب تک میری نظر خون پر نہیں پڑی۔‘
نوٹوں کا لفافہ عارف کے ہاتھ سے گر چکا تھا اور نوٹ زمین پر بکھر چکے تھے۔ ڈاکوؤں نے تیزی سے ہاتھ مارا اور 10 لاکھ روپے لے کر فائرنگ کرتے ہوئے بھاگنے لگے تو ایک گولی راہگیر کو لگی اور ان کی وہیں موت واقع ہو گئی۔
صرف صوبائی دارالحکومت لاہور ہی نہیں بلکہ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ڈکیتیوں کی شرح غیر معمولی ہے۔
پولیس کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اس سال جنوری سے لے کر ستمبر تک پورے صوبے میں 62 ہزار 514 ڈکیتی کی وارداتیں ہوئیں جن کی ایف آئی آرز بھی درج ہیں۔ دوسرے لفظوں میں روزانہ اوسطاً 231 ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی ہیں۔ اور اس حساب سے ایک گھنٹے میں پورے صوبے میں 9 ڈکیتی وارداتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔
پنجاب میں ڈکیتی کی وارداتوں کی شرح پر پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ ’ڈکیتی کی وارداتوں میں پچھلے سال کی نسبت اضافہ نہیں ہے بلکہ رپورٹنگ زیادہ ہونے اور ایف آئی آرز کے فوری اندراج کی وجہ سے گزشتہ چند سالوں میں جرائم کی تعداد کی صحیح صورت حال سامنے آ رہی ہے۔‘