Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہروں میں پولیس کی سٹریٹ پیٹرولنگ جرائم روکنے میں ناکام کیوں؟

اسلام آباد میں ڈولفن فورس کے علاوہ ‘ایگل سکواڈ‘ اور ’پکار۔ ون فائیو‘ کے نام سے بھی خصوصی دستے کام بھی کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ ملک کا محفوظ ترین شہر ہے لیکن کچھ عرصے سے یہاں بھی سٹریٹ کرائمز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
گزشتہ تین ماہ کے دوران اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں شہریوں سے موبائل فون، نقدی اور گاڑیاں چھیننے کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر چار بڑے شہروں کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پشاور میں بھی جرائم کی تعداد کم نہیں ہے۔ پشاور اور کوئٹہ میں سٹریٹ کرائمز بڑھ رہے ہیں جبکہ کراچی میں گذشتہ آٹھ ماہ میں 70 کے قریب افراد صرف ڈکیتی کی وارداتوں کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
تمام بڑے شہریوں کی پولیس نے سٹریٹ کرائمز کو روکنے کے لیے مختلف ناموں سے پولیس کے مخصوص دستے مامور کیے ہیں جنہیں جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔ تاہم سیف سٹی کیمروں اور گشت کرنے والی اس پولیس کی موجودگی کے باوجود جرائم کی بیخ کنی ایک چیلنج بن چکی ہے۔

’پولیس ڈکیتیوں کے پیچھے بھاگ نہیں سکتی‘

ایک شہری عطا الرحمان اسلام آباد میں ایک پرائیویٹ دفتر میں کام کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ رواں برس جولائی میں اسلام آباد کے تھانہ نون کی حدود میں موبائل چھیننے کی واردات ہوئی۔
عطا الرحمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میں سڑک کے کنارے پر چل رہا تھا۔ اسی دوران موٹر سائیکل پر سوار ایک لڑکا مجھ سے موبائل فون چھین کر فرار ہو گیا۔‘
’میں نے قریب ہی چند گز کے فاصلے پر کھڑے پولیس اہلکاروں سے مدد مانگی تو ان کا جواب تھا کہ ایسا نہیں ہوتا کہ ہم موٹر سائیکل سوار کے پیچھے بھاگنے لگیں۔ آپ کو تھانے میں رپورٹ کرنا ہو گا۔‘
عطا الرحمان کے مطابق ’تھانہ نون میں ایف آئی آر درج کرانے کے بعد دو ماہ ہونے کو ہیں، انہیں اپنے چھینے گئے موبائل فون کے بارے میں کوئی مثبت اطلاع نہیں ملی۔‘
ان کے بقول ’مجھے تفتیشی افسر نے بتایا کہ یہاں راولپنڈی میں ایسے افراد بیٹھے ہیں جو چوری شدہ فونز کے آئی ایم ای آئی نمبر بدل دیتے ہیں۔ اس لیے انہیں ٹریس کرنا بہت مشکل ہے۔‘
’مجھے ایک اور پولیس اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گمشدہ یا چھینے گئے موبائل فون کے کیس میں اکثر پولیس کو کچھ نہیں ملتا۔ آپ کی ایف آئی آر کچھ وقت میں ردّی کی ٹوکری کی نذر ہو جائے گی۔‘

گزشتہ تین ماہ کے دوران اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں شہریوں سے موبائل فون، نقدی اور گاڑیاں چھیننے کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ (فائل فوٹو: فری پک)

نام بدلتے ہیں، کام میں بہتری نہیں آتی

سابق وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قائم اتحادی حکومت نے رواں برس جولائی میں اسلام آباد میں سٹریٹ کرائمز کو روکنے کے لیے ’ڈولفن فورس‘ کے نام سے پولیس کے ایک شعبے کا آغاز کیا تھا۔
ڈولفن فورس کے قیام کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ اس کے اہلکار جدید اسلحے سے لیس ہو کر ہیوی موٹرسائیکلوں پر شہر کی مختلف سڑکوں اور گلیوں میں گشت کرتے رہیں گے تاکہ جرائم پیشہ عناصر کی بر وقت سرکوبی کی جائے۔
ڈولفن فورس کے علاوہ ‘ایگل سکواڈ‘ اور ’پکار۔ ون فائیو‘ کے نام سے بھی خصوصی دستے بنائے جاتے رہے اور یہ کام بھی کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود جرائم کے تعداد میں خاطر خواہ کمی نہیں دیکھی گئی۔
گذشتہ چند ماہ میں شہریوں سے موبائل فونز چھیننے کے واقعات کا سوشل میڈیا پر کافی ذکر رہا لیکن اکثر واقعات میں پولیس رپورٹ درج ہونے کے باوجود مجرم گرفتار ہوئے اور نہ ہی متاثرین کو ان کا مسروقہ سامان واپس مل سکا۔
وفاقی دارالحکومت کی گلیوں اور چوکوں میں سیف سٹی پروجیکٹ کے کیمروں کی مدد کے ساتھ بھی سٹریٹ کرمنلز نہیں پکڑے جا رہے۔ نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ گذشتہ دنوں اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ کے قریب سے سیف سٹی کا ایک کمیرہ چوری ہونے کا واقعہ بھی پیش آ چکا ہے۔

اسلام آباد کے وہ علاقے جو سٹریٹ کرائمز کا مرکز ہیں

اسلام آباد پولیس کی ویب سائٹ پر موجود تازہ ترین کرائم ڈائری کے مندرجات کے مطابق گنگال چوک، کورال، تھانہ ہمک، تھانی نون، انڈسٹریل ایریا، کراچی کمپنی، بحریہ ٹاؤن، شہزاد ٹاؤن، آئی ایٹ، آئی نائن، آئی ٹین اور ایچ نائن سیکٹرز کی حدود میں موبائل فون اور نقدی چھینے جانے کے علاوہ موٹر سائیکل اور گاڑیوں کی چوری کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ 

لاہور کا سٹی ڈویژن جرائم کی رپورٹنگ کے اعتبار سے پہلے نمبر پر رہا ہے جس میں 46 ہزار سے زائد جرائم رپورٹ ہوئے ہیں۔ (فائل فوٹو: پنجاب پولیس فیس بک)

سٹریٹ کرمنلز کے خاتمے کے لیے کارروائیاں جاری: ترجمان پولیس

اردو نیوز نے اس حوالے سے جاننے کے لیے کئی پولیس آفیسرز سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے براہ راست کوئی جواب نہیں دیا لیکن اسلام آباد پولیس کے ترجمان تقی جواد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پولیس اپنا کام پوری تندہی سے انجام دے رہی ہے اور اب تک ہم نے سٹریٹ کرائمز اور سنیچنگ میں ملوث کئی ملزم گرفتار کیے ہیں۔‘
اسلام آباد پولیس کے ترجمان نے اردو نیوز کو جو معلومات دیں ان کے مطابق ’رواں برس کے دوران اسلام آباد پولیس نے 128 سنیچرز گرفتار کیے اور 90 لاکھ سے زائد مالیت کے 71 موٹر سائیکل برآمد کیے۔ ان میں سے 62 موٹر سائیکل ان کے مالکان کے حوالے کیے گئے۔‘
شہریوں سے موبائل فونز چھینے جانے کے حوالے سے ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ان کی برآمدگی کا کوئی میکنزم ہے یا نہیں اور یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ ایسے جرائم میں ملوث افراد سیف سٹی کے کیمرے نصب ہونے کے باوجود کیسے کامیابی سے غائب ہو جاتے ہیں۔

کراچی میں ڈکیتیوں کے دوران 69 شہری قتل

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گزشتہ 8 ماہ میں جرائم کی 60 ہزار وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر 69 شہریوں کو قتل کیا گیا۔
سندھ پولیس کی جانب سے کراچی میں سٹریٹ کرائمز اور ڈکیتی کی وارداتوں پر یکم جنوری سے 31 اگست تک کی رپورٹ جاری کی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق آٹھ ماہ کے دوران 69 سے زائد شہری ڈکیتی میں دوران مزاحمت پر قتل ہوئے اور سینکڑوں شہری زخمی ہوئے جبکہ مختلف دیگر واقعات میں 422 شہریوں کی جان گئی۔ 

کراچی پولیس کے ترجمان ریحان شاہد کے مطابق ’شہر میں موبائل فون چھیننے کی وارداتوں میں ملوث گروہوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یکم جنوری سے 31 اگست تک کراچی میں 18 ہزار 810 موبائل فون چھینے گئے۔ شہریوں کی 39 ہزار 215 موٹر سائیکلیں اور ایک ہزار 96 گاڑیاں چوری ہوئیں یا چھینی گئیں جبکہ 13 تاجروں کو بھتے کی پرچیاں دی گئیں اور چھ کو اغوا کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیس نے اس عرصے میں 356 موبائل فون، دو ہزار 285 کاریں اور موٹر سائیکلیں برآمد کی ہیں۔
کراچی پولیس کے ترجمان ریحان شاہد نے اردو نیوز کے نامہ نگار زین علی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’شہر میں جرائم کی وارداتوں کی روک تھام کے لیے پولیس تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اقدامات کر رہی ہے۔‘
’شہر میں موبائل فون چھیننے کی وارداتوں میں ملوث گروہوں کے خلاف مسلسل کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کوشش کررہے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے جرائم کی روک تھام کے ساتھ ساتھ شہریوں کو بہتر سے بہتر ماحول فراہم کریں۔‘

آٹھ ماہ میں لاہور میں دو لاکھ مقدمات درج

لاہور میں جرائم کی صورت حال دیگر شہروں سے مختلف نہیں ہے۔ محکمہ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2023 کے پہلے آٹھ مہینوں صوبائی دارالحکومت لاہور میں دو لاکھ سے زائد مقدمات درج کیے گئے جن میں ڈکیتی، چوری، راہزنی، اغوا اور قتل سمیت ہر طرح کے جرائم شامل ہیں۔
لاہور کا سٹی ڈویژن جرائم کی رپورٹنگ کے اعتبار سے پہلے نمبر پر رہا ہے جس میں 46 ہزار سے زائد جرائم رپورٹ ہوئے ہیں۔ 
دوسری جانب لاہور پولیس کے ترجمان کا موقف ہے کہ شہر میں جرائم میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ایف آئی آر کے اندراج کے عمل میں تیزی کے سبب رپورٹنگ زیادہ ہے لیکن سٹریٹ کرائمز یا دیگر جرائم میں لاہور کے کسی علاقے میں اضافہ رپورٹ نہیں ہوا ہے۔ اس وقت سیف سٹی اور ڈولفن فورس 24گھنٹے فوری رسپانس کے ساتھ دستیاب ہونے کی وجہ سے بھی جرائم میں کمی واقع ہوئی ہے۔‘

پشاور میں ابابیل رائیڈرز کی موجودگی بھی سٹریٹ کریمنلز کو قابو نہ کر سکی۔ (فوٹو: پشاور پولیس)

لاہور میں گذشتہ برس جنوری سے مارچ تک کے مہینوں میں جرائم کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنےمیں آیا تھا۔ مبصرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام اور محکمہ پولیس میں بار بار تبادلے تھے تاہم نگران حکومت کے بعد صورت حال خاصی تبدیل ہوئی ہے۔

پشاور کا ’ابابیل سکواڈ‘ کیا کر رہا ہے؟

خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں بھی سٹریٹ کرائم کی صورت حال کچھ مختلف نہیں۔ موبائل فون سنیچنگ اور موٹر سائیکل چھیننے کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔
پولیس کی جانب سے سٹریٹ کرائمز کے حوالے سے حیات آباد، گلبہار، رنگ روڈ، ناردرن بائی پاس روڈ اور چارسدہ روڈ کے علاقوں کو ہاٹ سپاٹ قرار دیا گیا ہے۔
پشاور میں جرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے سنہ 2021 میں سپیشل فورس ’ابابیل سکواڈ‘ کے نام سے قائم کی گئی تھی جس میں 800 کے قریب اہلکار تعینات کیے گئے مگر ان ابابیل رائیڈرز کی موجودگی بھی سٹریٹ کریمنلز کو قابو نہ کر سکی۔
پشاور پولیس کے ایس ایس پی آپریشنز کاشف آفتاب عباسی نے اردو نیوز کے نامہ نگار فیاض احمد کو بتایا کہ ’حکمت عملی میں تبدیلی لانے سے جرائم میں کافی حد تک کمی آئی ہے تاہم پولیس کو سڑکوں پر اپنی موجودگی دکھانے کی ہدایت کی گئی ہے۔‘
ایس ایس پی آپریشنز کے مطابق ’ابابیل سکواڈ کے 75 رائیڈرز اس وقت شہر میں ڈیوٹی دے رہے ہیں جبکہ مزید بھرتیوں کی منظوری بھی دی جا چکی ہے۔‘

کوئٹہ میں ’کراچی کی طرح کی وارداتیں‘

کوئٹہ میں بھی حالیہ مہینوں میں چوری و ڈکیتی سمیت سٹریٹ کرائمز میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
پولیس تھانوں سے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق کوئٹہ کے تقریباً 25 سے زائد تھانوں کی حدود میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران سات گاڑیاں، 23 موٹر سائیکلیں اور 135 موبائل فون چوری یا چھیننے کے واقعات ہوئے ہیں۔

کوئٹہ میں سنہ 2018 میں سٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے ایگل سکواڈ کے 800 اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

زیادہ تر وارداتیں سریاب روڈ، بروری روڈ، سمنگلی روڈ، جناح ٹاؤن، لیاقت بازار، جناح روڈ سمیت شہر کے گنجان آباد علاقوں سے رپورٹ ہو رہی ہیں۔
خواتین سے پرس چھیننے اور سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں اور تیمارداروں سے سوتے ہوئے موبائل چوری کرنے کے  واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
کوئٹہ میں اردو نیوز کے نامہ نگار زین الدین احمد کو ایک شہری روح اللہ نے بتایا کہ ’اب تو کراچی کی طرح شہر کی مصروف سڑکوں پر دن دیہاڑے اسلحہ تان کر لوگوں کو لوٹا جا رہا ہے۔‘
شہریوں کی شکایت ہے کہ پولیس تھانے شکایت کے باوجود بیشتر وارداتوں کی ایف آئی آر درج نہیں کرتے یا پھر صرف اطلاعی رپورٹ درج کرکےمعاملے کو بھول جاتے ہیں۔
کوئٹہ میں سنہ 2018 میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے ساتھ ساتھ سٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے ایگل سکواڈ کے 800 اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔ موٹر سائیکل پر شہر کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں گشت کرنے والے ان اہلکاروں کو پاکستان فوج سے خصوصی تربیت دلائی گئی۔
ابتدا میں ایگل سکواڈ کی تعیناتی سے جرائم میں کمی دیکھی گئی تاہم اب شہریوں کی شکایت ہے کہ ایگل سکواڈ کے اہلکار جرائم پیشہ عناصر کا پیچھا کرنے کی بجائے موٹر سائیکل اور گاڑیوں کو روک کر کاغذات اور لائسنس چیک کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں حالاںکہ یہ ٹریفک پولیس کا کام ہے۔

’پولیس اہلکار نے کہا کھانے کے بعد دیکھیں گے‘

فوٹو گرافر عصمت اللہ نے بتایا کہ انہوں نے گذشتہ دنوں شہر کے مصروف علاقے سرکلر روڈ پر موبائل چھینے جانے کے کچھ ہی دیر بعد ایک ہوٹل کے قریب کھڑے اہلکاروں سے چوروں کا پیچھا کرنے کا کہا تو کہنے لگے کہ ’انہوں نے کھانے کا آرڈر دے رکھا ہے کھانا کھانے کے بعد دیکھیں گے۔‘
دوسری جانب کوئٹہ پولیس کا موقف ہے کہ گذشتہ ایک مہینے میں درجن کے قریب چوروں اور رہزنوں کو پکڑا گیا ہے۔
ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس عبدالحئی بلوچ کہتے ہیں کہ ’کوئٹہ میں سٹریٹ کرائم کی روک تھام کے لیے حکمت عملی بہتر کرنے اور قابل افسران کو تعینات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

شیئر: