Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں مصنوعات کے معیار کو یقینی بنانے والے ادارے ناکام کیوں؟

پاکستان میں اس وقت کئی ادارے وفاقی اور صوبائی سطح پر مصنوعات کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے کام رہے ہیں (فوٹو: پی ایس کیو سی اے)
کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ مارکیٹ گئے ہوں اور دکاندار نے آپ کو مطلوبہ چیز دیتے ہوئے کہا ہو کہ یہی چیز امپورٹڈ میں بھی دستیاب ہے۔ بس پیسے تھوڑے سے زیادہ لگیں گے۔
آپ نے تھوڑے توقف کے بعد پیسوں کا فرق نکال کر دکاندار سے پھر پوچھا ہو کہ اس کا فائدہ کیا ہو گا اور دکاندار کا جواب ہو ’ولائتی چیز ولائتی ہوتی ہے۔ پائیدار ہوتی ہے‘ اور پھر آپ نے وہ چیز خرید لی۔
اگر آپ صارف ہیں تو یقیناً ایسی صورت حال کا اکثر سامنا رہا ہو گا۔ پاکستان میں اس وقت کئی ادارے وفاقی اور صوبائی سطح پر مصنوعات کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے کام رہے ہیں لیکن اس کے باوجود مقامی اشیا کے معیار سے متعلق صارفین میں ابہام ہی رہتا ہے۔
لاہور کے شہری محمد قاسم کا کہنا ہے کہ ’میں جب بھی مارکیٹ سے کوئی چیز خریدنے جاؤں اور اگر مجھے دکاندار بتائے کہ پیسوں کے کچھ فرق سے امپورٹڈ میں بھی وہی چیز پڑی ہے تو میں وہی خریدتا ہوں۔‘
’اس کی وجہ ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بھی پاکستان میں بننے والی اشیا اور باہر سے آئی اشیا کے معیار میں فرق ہوتا ہے۔ پتا نہیں اس کی کیا وجہ ہے۔ لیکن ان کی افادیت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔‘
پیرا سیٹامول کے سالٹ کی مشہور دوا پیناڈول روز مرہ کی ضرورت ہے۔ اس سالٹ کی امپورٹڈ دوائی ٹیلانول بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے۔
شہری جنید انصاری کا کہنا ہے کہ ’میں ٹیلانول کی ایک ڈبی سال میں ایک بار لیتا ہوں مجھے وہ اچھی خاصی مہنگی پڑتی ہے۔ لیکن میری فکر ختم ہو جاتی ہے۔ جتنا فائدہ اس سے ہوتا ہے، لوکل دوائی سے نہیں ہوتا۔‘
’پچھلے کچھ عرصے میں جب امپورٹ بند یا کم ہوئی ہے تو امپورٹڈ چیزیں اور مہنگی ہو گئی ہیں اس لیے تھوڑی مشکل ہے لیکن ان کی کوالٹی بہت اچھی ہوتی ہے۔‘
پاکستان میں مصنوعات کے معیار کو برقرار رکھنے کا ذمہ دار وفاقی ادارہ پاکستان سٹینڈرڈز کوالٹی کنٹرول (پی ایس کیو سی) کے نام سے موجود ہے۔

پاکستان میں مصنوعات کے معیار کو برقرار رکھنے کا ذمہ دار وفاقی ادارہ پاکستان سٹینڈرڈز کوالٹی کنٹرول کے نام سے موجود ہے۔ (فوٹو: پی ایس کیو سی اے)

پی ایس کیو سی کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد اصغر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ اب لوگوں کی نفسیات کا مسئلہ بھی ہے۔ اگر کسی کا ذاتی تجربہ ٹھیک نہیں رہا۔ یا آپ ذہنی طور پر ایک چیز کو تسلیم کر چکے ہیں تو پھر اس بات کا کوئی علاج نہیں ہے۔ انسانی دماغ پلیسبو ایفیکٹ (یقین کی طاقت) سے کیسے متاثر ہوتا ہے اب یہ سائنسی حقیقت ہے۔‘
’ہمارا ادارہ بین الاقوامی معیار کے مطابق مصنوعات کی سٹینڈرائزیشن رکھتا ہے۔ رکھیں بھی کیوں نہ جتنی برآمدات پاکستان سے جاتی ہیں یہ ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ معیار کی گارنٹی ہو۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں 26 ہزار سے زائد اشیا، جن میں کھانے پینے سے لے کر انڈسٹری تک کی اشیا شامل ہیں کا معیار مقرر کر دیا گیا ہے۔ جبکہ 166 اشیا ایسی ہیں جن کو رکھنے بیچنے کے لیے ہماری طرف سے جاری شدہ لائسنس کا ہونا بھی ضروری ہے۔‘
’آپ نے دیکھا ہوگا کہ مارکیٹ میں اب آپ کو ایسی مصنوعات کی بھرمار نظر آتی ہوگی جن پر پاکستان سٹینڈرز کی مہر لگی ہوتی ہے۔ چاہے وہ مصنوعات درآمد کی جاتی ہیں لیکن ان پر اردو میں لیبلنگ ہوتی ہے۔ تا کہ عام صارف ٹھیک سے پڑھ سکے۔ ہم لائسنسنگ کے دائرہ کار کو اور بھی بڑھا رہے ہیں تاکہ مصنوعات مارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی معیاری ہوں۔‘
لیکن بات اتنی بھی سادہ نہیں ہے۔ چھوٹے کاروباری افراد کو معیار سے متعلق کئی سالوں سے کنسٹلنسی فراہم کرنے والے جنید کاہلوں کہتے ہیں کہ یہ ادارے ابھی صرف خانہ پوری کے لیے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعات کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے قانون تو موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

’اصل مسئلہ اشیا کا معیار مقرر کرنا نہیں ہے بلکہ اس پر عمل درآمد کروانا ہے۔ پاکستان سٹینڈرز اور کوالٹی کنٹرول ادارہ ابھی اس حوالے سے بنیادی سطح پر بھی نہیں ہے۔ لاہور کے دفتر میں اس ادارے کے پاس کل سٹاف 15 افراد پر مشتمل ہے۔ ملک بھر میں چند سو افراد ہیں اور ان کا کام مصنوعات کے معیار کو یقینی بنانا ہے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’میرے اپنے تجربے کے مطابق جو کاٹیج انڈسٹری ہے جس نے دس، بیس لاکھ سے کام شروع کرنا ہے، ان کے لیے کاروبار شروع کرنے کے مرحلے کو معیار کے نام پر بہت مشکل بنا دیا ہے۔ شہد بیچنے کے لیے اب آپ کی اپنی لیب کا ہونا ضروری ہے۔ جبکہ وسائل کا عالم یہ ہے کہ پی ایس کیو سی اپنے اکثریتی لیب ٹیسٹ تھرڈ پارٹی سے کرواتی ہے۔‘
’میرا خیال ہے جیسے ہم اکثر کہتے ہیں کہ قانون تو موجود ہے عمل داری نہیں ہے۔ ادھر بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ایک طرف غیر معیاری اشیا کی بھرمار ہے۔ تو دوسری طرف نئے کاروبار کھولنا معیار کے نام پر مشکل بنا دیا گیا ہے۔‘
تاہم پی ایس کیو سی اس بات کو رد کرتا ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر محمد اصغر کا کہنا ہے کہ ’اٹھارویں ترمیم کےبعد خوراک کے محکمے صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں۔ اور فوڈ اتھارٹیز کام کر رہی ہیں۔ عمل درآمد کروانا ان کا کام ہے۔ ہمارا کام صرف معیار کا مقرر کرنا اور ایسی مصنوعات جو ایک قانونی مرحلہ مکمل ہونے کے بعد ہمارے لائسنس کے بغیر رکھی یا بیچی نہیں جا سکتیں کے معیار کی مسلسل جانچ کرنا ہے۔ اور ہمارے بنائے ہوئے سٹینڈرز بین الاقومی معیار سے ہم آہنگ ہیں۔

شیئر: