Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صحافیوں کے اعتراض کے باجوود ہتک عزت بل 2024 منظور، اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد

صحافتی تنظیموں کے وفد نے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر سے بھی ملاقات کی (فائل فوٹو: پی آٗئی ڈی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی اسمبلی نے پیر کے روز ہتک عزت کا ایک نیا قانون صحافیوں کے اعتراض اور احتجاج کے باوجود منظور کر لیا ہے۔
 ہتک عزت بل 2024 سوموار کو پنجاب اسمبلی میں وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمان نے ایوان میں پیش کیا جس کے بعد صحافیوں نے احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔

اسمبلی میں بل پر بحث کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق نے بل کے اہم نکات اور اپوزیشن کے اعتراضات کا جواب دیا۔ 

اپوزیشن کی جانب سےجمع کرائی گئی تمام ترامیم مسترد کردی گئیں۔ اپوزیشن نے بل کو کالا قانون قرار دے دیا اور احتجاجاً بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ 

 صحافیوں نے بھی پریس گیلری سے واک آئوٹ کیا اور بل کے خلاف اسمبلی سیڑھیوں پر احتجاج کیا۔ 

اس بل کا اطلاق پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہو گا۔ بل کے تحت پھیلائی جانے والی جھوٹی اور غیرحقیقی خبروں پر ہتک عزت کا کیس ہو سکے گا۔
بل کا یوٹیوب، ٹک ٹاک، ایکس (سابق ٹوئٹر)، فیس بک، انسٹاگرام کے ذریعے پھیلائی جانے والی جعلی خبروں پر بھی اطلاق ہو گا۔ کسی شخص کی ذاتی زندگی اور عوامی مقام کو نقصان پہنچانے کےلئے پھیلائی جانے والی خبروں پر قانون کے تحت کارروائی ہو گی۔‘
بل کے مسودے میں درج تفصیلات کے مطابق ’ہتک عزت کے کیسز کے لیے خصوصی ٹربیونلز قائم ہوں گے جو چھ ماہ میں فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے۔ اس قانون کے تحت 30 لاکھ روپے کا ہرجانہ ہو گا۔‘
بل میں کہا گیا ہے کہ ’آئینی عہدوں پر موجود شخصیات کے خلاف الزام کی صورت میں ہائی کورٹ کے بنچ کیس سننے کے مجاز ہوں گے۔‘
پنجاب اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے صحافتی تنظیموں کے نمائندوں کی سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان اور وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری سے تین گھنٹے کی طویل مشاورت ہوئی۔
اس سے پہلے صحافتی تنظیموں نے احتجاج کی کال دی تھی جو حکومت کی طرف سے مذاکرات کی دعوت پر واپس لے لی گئی تھی۔
پنجاب اسمبلی میں ہونے والی مذاکرات میں صحافتی تنظیموں نے بل پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ بل کا مزید جائزہ لینے اور تجاویز دینے کے لیے بل کی منظوری کو مؤخر کیا جائے۔
اس طویل مشاورت میں کچھ تنظیموں نے تجاویز تحریری شکل میں دیں جبکہ باقی سٹیک ہولڈرز کی تجاویز تک بل کو مؤخر کرنے کا پرزور مطالبہ جاری رہا۔
صحافی تنظیموں کے رہنماؤں نے اعتراض کیا کہ بل میں وفاقی قانون سازی اور پنجاب کی قانون سازی پر بنیادی ابہام ہیں جنہیں دور کرنا ضروری ہے۔
قبل ازیں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب  اور وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے بل سے متعلق صحافی رہنماؤں کو بریف کیا اور یقین دہانی کروائی کہ حکومت صحافیوں کی تجاویز لینے کے لیے تیار ہے۔
سپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ ہتک عزت بل ایجنڈے پر آ چکا ہے اب حکومت بتائے گی کہ اس نے اگلا لائحہ عمل اختیار کرنا ہے۔
اس ملاقات میں سی پی این ای، اے پی این ایس، ایمنڈ، لاہور پریس کلب، پی ایف یو جے سمیت دیگر صحافتی تنظیموں کے رہنمائوں نے شرکت کی۔
اس کے بعد صحافتی تنظیموں کے وفد نے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر سے بھی ملاقات کی جبکہ اپوزیشن لیڈر نے صحافیوں کے مطالبات کی حمایت کر دی۔
ان کا کہنا تھا کہ آزادی اظہار رائے پر قدغن قبول نہیں کریں گے ’ہم نے ہتک عزت بل پر اپنی 15 ترامیم جمع کروائی ہیں۔‘
دوسری طرف اجلاس کی کارروائی اڑھائی گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا اور اپوزیشن نے اجلاس کی کارروائی شروع ہونے سے قبل ہی احتجاج شروع کر دیا اور ’کالا قانون نامنظور‘ کے نعرے لگائے۔

شیئر: