وزیر داخلہ نے کہا کہ ’پروف آف رجسٹریشن اور افغان سٹیشن کارڈ کے حامل افراد کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی اور اس سلسلے میں کسی کوتاہی اور بدتمیزی کو ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘
وزارت داخلہ نے اس ضمن میں کنٹرول سینٹر اور ہیلپ لائن قائم کر دی ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ ’افغان سفارتخانہ ایک نمائندہ مقرر کرے، جو شکایات کے فوری حل کے لیے کنٹرول سینٹر سے ہمہ وقت رابطے میں رہے۔‘
حکومتِ پاکستان کی جانب سے ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد کو واپسی کے لیے دی گئی ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد یکم نومبر سے ان کے خلاف کارروائی کا آغاز ہو گیا ہے۔
اسلام آباد کی انتظامیہ نے افغان شہریوں کے گھروں کو بھی مسمار کر دیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اکتوبر میں ایک لاکھ 65 ہزار افغان شہری پاکستان چھوڑ کر افغانستان چلے گئے ہیں۔
پاکستان کی حکومت نے 17 لاکھ غیرقانونی مقیم افغانوں کو پاکستان چھوڑنے کی ہدایت کی اور کہا تھا کہ جنہوں نے مقررہ وقت پر پاکستان نہیں چھوڑا ان کو گرفتار اور ڈی پورٹ کیا جائے گا۔
ضلع خیبر کے ڈپٹی کمشنر عبدالناصر خان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ڈیڈلائن کی وجہ سے بڑی تعداد میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان طورخم پہنچے۔ لوگ اب بھی رضاکارانہ طور پر واپس جا سکتے ہیں تاہم آج صرف ایک ہزار لوگ سرحد پر موجود ہیں۔‘
صوبائی محکمہ داخلہ کے اعدادوشمار کے مطابق خیبر پختونخوا سے ایک لاکھ 29 ہزار سے زیادہ افراد افغانستان واپس جا چکے ہیں جبکہ بلوچستان میں حکام کا کہنا ہے کہ چمن سرحد کے ذریعے 38 ہزار افغان شہری اپنے ملک چلے گئے ہیں۔
واپس جانے والے افغانوں میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو پہلی مرتبہ اپنے ملک جا رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی معاملات پر تعاون کے لیے یہ پاکستان کی جانب سے ایک حربہ بھی ہو سکتا ہے۔
افغان حکام نے کہا تھا کہ پاکستان کی حکومت کے اس فیصلے سے دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات متاثر ہوں گے۔