الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیے جانے کے بعد سیاسی جماعتیں اس بات پر تو خوش ہیں کہ ملک میں انتخابات کی تاریخ آ گئی ہے اور اب ملک سیاسی استحکام کی جانب گامزن ہوگا تاہم اس کے باجود ان کے کچھ گلے شکوے بھی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
الیکشن کمیشن نے 11 فروری کو عام انتخابات کرانے کی تاریخ دے دیNode ID: 808586
-
عام انتخابات کے لیے دی گئی تاریخ پتھر پر لکیر ہو گی: چیف جسٹسNode ID: 808631
سینیٹ آف پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹرشہزاد وسیم نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آج ایک اچھی خبر ہے کہ انتخابات کی تاریخ سامنے آگئی ہے جو کہ خوش آئند ہے، لیکن ایک بری خبر بھی ہے کہ آئین ایک بار پھر ٹوٹا ہے کیونکہ 90 روز میں انتخابات کا آئینی تقاضا پورا نہیں ہوا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمارا تو موقف تھا کہ جو بھی کام ہو وہ قانون اور آئین کے مطابق ہو۔ آئین بالادست ہے اور قانون اس کے تحت ہے۔ کوئی قانون سازی آئین سے بالاتر نہیں ہوسکتی۔ یہی بات ہم سمجھاتے تھے جو نہیں مانی گئی اور خرابیاں پیدا ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کو بھی اب جا کر یہ احساس ہوا ہے کہ انتخابات 90 دن کے اندر ہی ہو جانے چاہیے تھے۔‘
ڈاکٹر شہزاد وسیم کا کہنا تھا کہ ’سابق چیف جسٹس کے دور میں پنجاب اور کے پی میں انتخابات کی تاریخ دی گئی تھی، لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ عدالتوں کا وقار اسی میں ہے کہ وہ جو فیصلے کریں اس پر عملدرآمد بھی کروا سکیں۔‘
پی ڈی ایم کی حکومت نے صدر کی جانب سے صوبوں میں انتخابات کی تاریخ دینے کے بعد الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کو تفویض کر دیا تھا۔ آج سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو صدر مملکت سے مشاورت کرکے تاریخ اور شیڈول کا اعلان کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس حوالے سے سابق وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار تو اسی کا ہے جس کا ذکر قانون میں موجود ہے اور وہ الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ سپریم کورٹ نے روایت کو سامنے رکھتے ہوئے صدر سے مشاورت کی ہدایت کی ہے۔‘
ماضی میں اتنخابات کی تاریخ کے حوالے سے مسلم لیگ ن واحد جماعت تھی جسے کوئی جلدی نہیں تھی اور ان پر یہ الزام آتا رہا ہے کہ وہ انتخابات نہیں چاہتے، لیکن آج سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ’انتخابات کی تاریخ اس سے آگے جا نہیں سکتی تھی۔ 54 روز کے شیڈول سے بھی ایک ہفتہ آگے جانے سے فائدہ ہوگا کہ موسم بہتر ہو جائے گا اور سردی سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں کے ووٹرز کو بھی آسانی ہو جائے گی۔‘
