آئندہ انتخابات میں کراچی کس سیاسی جماعت کا ہو گا؟
آئندہ انتخابات میں کراچی کس سیاسی جماعت کا ہو گا؟
ہفتہ 4 نومبر 2023 7:16
زین علی -اردو نیوز، کراچی
پی ٹی آئی کراچی کی قیادت کی جانب سے 12 نومبر کو کراچی میں ڈالمیا کے مقام پر عوامی جلسے کا اعلان کیا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انتخابات کی تاریخ دیے جانے کے بعد سیاسی جماعتوں کی تیاریوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور ہر سیاسی جماعت اگلے انتخابات میں کامیاب ہونے کے لیے کوشاں ہے۔
تاہم یہ انتخابات ماضی کی طرح نہیں ہوں گے جن کے بارے میں پہلے سے ہی یہ معلوم ہوتا تھا کہ کون سی جماعت کامیاب ہو گی کیوںکہ ان انتخابات میں اگر ایک جانب پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) سیاسی مشکلات کا سامنا کر رہی ہے تو دوسری جانب دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے بھی یہ معرکہ سر کرنا آسان نہیں ہے۔
ان حالات میں پی ٹی آئی نے ایک بار پھر کراچی میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی کامیابی پارٹی کارکنوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کر سکتی ہے۔
پارٹی سربراہ عمران خان سمیت مرکزی رہنماؤں کے جیل اور روپوشی میں ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا جلسہ کامیاب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
پی ٹی آئی کراچی کی قیادت کی جانب سے 12 نومبر کو کراچی میں ڈالمیا کے مقام پر عوامی جلسے کا اعلان کیا گیا ہے۔
روپوشی میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو اس جلسے میں شرکت کی دعوت دے رہے ہیں۔
شہر میں پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیاں معطل ہیں اور تقریباً تمام ہی دفاتر بند ہیں، ایسے میں پی ٹی آئی اس جلسے کو کیسے کامیاب بنائے گی؟ یہ اس کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کراچی کی ترجمان فلک الماس کے مطابق پی ٹی آئی نے 12 نومبر کے جلسے کی اجازت کے لیے انتظامیہ سے رابطہ کیا ہے لیکن انتظامیہ کی جانب سے اب تک کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا گیا۔ انہوں نے الیکشن کمیشن سے درخواست کی کہ جلسے کی اجازت نہ ملنے کا نوٹس لیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کراچی میں تمام سیاسی جماعتوں کو جلسہ منعقد کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے لیکن پی ٹی آئی کے معاملے میں مکمل خاموشی ہے۔‘
فلک الماس نے مزید کہا کہ ’ماضی میں جن جماعتوں نے شہر کو تباہ کیا انہیں جلسے کرنے کے لیے انتظامی پشت پناہی حاصل ہے، جبکہ کراچی کی مقبول ترین جماعت پی ٹی آئی کو موقع فراہم نہیں کیا جا رہا۔‘
پی ٹی آئی کراچی کی ترجمان نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں جلسہ کرنے کی اجازت دی جائے۔
پی ٹی آئی کی درخواست کے بارے میں جب ضلعی انتظامیہ سے معلومات حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا تو ترجمان ڈپٹی کمشنر ضلع شرقی عابد علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جلسے کی اجازت مانگی گئی ہے۔ ان کی درخواست پولیس کو بھیجی جا چکی ہے۔ پولیس صورتحال کا جائزہ لے کر رپورٹ دے گی جس کی روشنی میں اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔‘
کراچی پر کون حکمرانی کرے گا؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دیتے ہوئے شہر میں موجود تمام ہی چھوٹی بڑی جماعتیں خود کو کراچی کی نمائندہ قرار دیتی ہیں۔
کراچی پر گذشتہ کئی دہائیوں سے حکمرانی کرنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ الزام عائد کرتی ہے کہ سنہ 2018 کے عام انتخابات میں ان سے مینڈیٹ چھین کر پی ٹی آئی کو دیا گیا تھا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما سید مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ کراچی میں رہنے والے اس حقیقت سے بہت اچھی طرح واقف ہیں کہ سنہ 2018 میں پی ٹی آئی کو کیسے نشستیں ملیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان تحریک انصاف نے کراچی کے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ شہر کی حالت بہتر کرنے کے بجائے اسے پیپلز پارٹی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ کراچی سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے۔ اب کراچی کے عوام اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں گے اور متحدہ کے امیدواروں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کروائیں گے۔‘
صوبے میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک حکمرانی کرنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کراچی کے صدر اور سابق صوبائی وزیر سعید غنی کا کہنا ہے کہ ’کراچی کے عوام اب ترقی چاہتے ہیں اور اس سفر کے لیے وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف دیکھ رہے ہیں جس کی مثال بلدیاتی انتخابات کے نتائج کی صورت میں سب کے سامنے موجود ہے۔ صوبے بھر سے پارٹی میں رہنماؤں اور کارکنوں کے شامل ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ عوام ترقی کے سفر کو تیز کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کا ہی ساتھ دیں گے۔‘
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمنٰ کا مؤقف ہے کہ ’شہر میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے گٹھ جوڑ سے عوام کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے، عوام کرپٹ اور مفاد پرست ٹولے سے چھٹکارا چاہتی ہے۔ میئر کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کا چہرہ بے نقاب ہو گیا ہے۔ سندھ میں بسنے والے لوگ یہ ادراک کر چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی ان کے مسائل کو حل نہیں کرسکتی۔‘
ایم کیو ایم لندن کے رہنما مصطفیٰ عزیز آبادی کے مطابق کراچی کے رہنے والے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے ساتھ ہیں۔ شہر میں ضمنی انتخابات اور بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے اعلان پر ووٹنگ کم ہونا ثابت کرتا ہے کہ اہل کراچی الطاف حسین کے ساتھ ہیں۔
سنہ 2018 میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی کراچی سے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ’بدترین حالات ہونے کے باوجود سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ کراچی سے خیبر تک عمران خان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ کراچی نے 2013 کے عام انتخابات میں بھی تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا اور 2018 میں بھی عمران خان کو ہی ووٹ دیا تھا۔‘
پی ٹی آئی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ’آئندہ برس عام انتخابات میں بھی پاکستان تحریک انصاف ہی کراچی سے کامیاب ہو گی۔‘
واضح رہے کہ سنہ 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے کراچی سے قومی اسمبلی کی 14 نشستیں حاصل کی تھیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے گڑھ لیاری حلقہ این اے 246 سے بلاول بھٹو کو شکست دے کر پی ٹی آئی کے امیدوار شکور شاد کامیاب ہوئے تھے۔
ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کی نشست این اے 254 پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار نے متحدہ کے امیدوار کو شکست دی تھی اور بلدیہ ٹا=ن حلقہ این اے 249 سے پی ٹی آئی کے امیدوار فیصل واوڈا نے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف کو شکست دی تھی۔
پی ٹی آئی ایک بار پھر کراچی سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی؟
اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سوال کا جواب تو عام انتخابات کے بعد ہی مل سکے گا، شہر میں اپنا اثر و رسوخ رکھنے والی سیاسی قوتیں اب عوام کو اپنے قریب لانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کراچی میں سیاسی خلا ہونے کے باعث تمام سیاسی جماعتوں کی توجہ کراچی پر ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان، تحریک انصاف کے کمزور ہونے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں جس کے لیے ماضی میں شہر کی اثرو رسوخ رکھنے والی شخصیات کو ساتھ ملایا جا رہا ہے۔‘
دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ الطاف حسین کے بغیر ہی اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ’شہر میں ایم کیو ایم پاکستان کے جلسے تو مناسب ہی ہوئے ہیں لیکن ووٹ لینے کے معاملے میں ایم کیو ایم کمزور نظر آ رہی ہے۔ الطاف حسین سے علیحدگی کے بعد ایم کیوایم اپنے مضبوط علاقوں میں بھی ضمنی الیکشن ہاری ہے اور کامیابی اگر ملی بھی ہے تو ووٹوں کا فرق بہت کم تھا جس کے باعث ایم کیو ایم کی سندھ کے شہری علاقوں میں بھی مشکلات بڑھی ہیں۔‘