Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان میں پھلوں کی پیشگی ادائیگی، سرحد کی بندش سے پاکستانی تاجروں کو کروڑوں کا نقصان

دونوں ممالک کے تعلقات میں خرابی سے تاجروں، مزدوروں اور ٹرانسپورٹرز کا کام متاثر ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
چمن میں دھرنے کے باعث پاک افغان سرحدی گزرگاہ دو دن سے بند ہے جبکہ منگل کو دونوں ملکوں کو جوڑنے والی طورخم سرحد کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔
کوئٹہ کی ہزارگنجی سبزی منڈی کے تاجر حاجی عبداللہ نے افغانستان کے صوبے قندھار میں انار کے باغ مالکان کو کئی ماہ پہلے کروڑوں روپے پیشگی ادا کیے تاکہ فصل تیار ہونے پر وہ ان سے انار حاصل کر سکیں۔
حاجی عبداللہ کا کہنا ہے کہ اب جب انار کی فصل تیار ہوگئی تو چمن میں جاری احتجاج کی وجہ سے قندھاری انار سمیت ہر قسم کی سبزیوں، پھلوں اور تجارتی سامان کی ترسیل بند ہوگئی جس کی وجہ سے تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ افغانستان سے ترسیل بند ہونے کی وجہ سے کوئٹہ کے ساتھ ساتھ کراچی، سندھ اور پنجاب کی منڈیوں میں اناراور انگور کی قیمت میں سو سے 200 روپے فی کلو اضافہ ہوگیا ہے۔ اگر چمن کے راستے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیاں اسی طرح معطل رہیں تو قیمتوں کومزید پر لگ جائیں گے۔
افغانستان سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع چمن میں مقامی قبائل، مزدور و تاجر تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے پاک افغان سرحد پر پاسپورٹ کی شرط کے نفاذ کے خلاف ایک ماہ سے دھرنا دے رکھا ہے اور اب پیر سے احتجاج میں مزید شدت لاتے ہوئے کوئٹہ ،چمن اورقندھار کو ملانے والی بین الاقوامی شاہراہ کو بھی ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر رکھا ہے۔
دھرنے کے شرکاء کا مطالبہ ہے کہ سرحد کے قریب رہنے والے دونوں ممالک کے شہریوں، مزدوروں اور تاجروں کو پاسپورٹ اور ویزے کی شرط سے مستثنیٰ قرار دیا جائے ۔
دھرنا کمیٹی کے ترجمان حاجی صادق اچکزئی کا کہنا ہے کہ چمن کے راستے افغانستان جانےوالے افغان پناہ گزینوں کے گاڑیوں اورٹرکوں کو جانے کی اجازت دی جارہی ہے پانچ دنوں بعد احتجاجاً یہ سلسلہ بھی روک دیں گے۔
احتجاج کی وجہ سے دو دنوں سے چمن کے راستے پاکستان اور افغانستان کےد رمیان ہر قسم کی تجارت معطل ہے۔ پھل، سبزیوں اور تجارتی سامان سے لدے سینکڑوں ٹرک پھنس گئے ہیں۔
مقامی حکام کے مطابق چمن کے راستے پاکستان سےکینو،مالٹا، کیلےسمیت دیگر پھلوں کے روزانہ سینکڑوں ٹرک افغانستان جارہے تھے۔ چاول،ماچس، کھلونے ، کپڑوں سمیت دیگر اشیاء کی بھی پنجاب اور سندھ کی فیکٹریوں سے افغانستان ترسیل ہورہی تھی۔اسی طرح افغانستان سے انار، انگور ،پیاز ، دالیں اور ڈرائی فروٹ پاکستان درآمد ہو رہا تھا۔

پاکستان کے تاجر افغانستان سے تازہ پھل درآمد کرتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

حکام کے مطابق پھلوں، سبزیوں اور دیگر تجارتی سامان سے لدی اوسطاً روزانہ 800 سے 1000 چھوٹی بڑی گاڑیاں اس سرحدی گزرگاہ سے گزرتی تھیں اب یہ سلسلہ دو دنوں سے مکمل طور پر بند ہیں۔
اس صورتحال سے سب سےز یادہ پھلوں اور سبزیوں کے تاجر متاثر دکھائی دے رہے ہیں۔چمن پر کسٹم کلیئرنگ ایجنٹ کے طور پر کام کرنے والے عبدالوارث نے بتایا کہ چمن کے راستے صرف انار سے لدی150 سے 200 گاڑیاں پاکستان آرہی تھیں جو اب بند ہوگئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ انار کی پیداوار قندھار سمیت افغانستان کے ان علاقوں میں ہوتی ہے جو چمن اور بلوچستان کے نزدیک ہیں انہیں طورخم کے راستے بھیجنے لاہور اور اسلام آباد تک بھیجنے پر دو سے ڈھائی لاکھ اور کراچی تک تین لاکھ روپے کے اضافی اخراجات آتے ہیں ۔یہ راستہ مہنگا ،لمبا پڑتا ہے اور کئی دن اضافی لگ جاتے ہیں اس دوران پھل خراب ہونے کی وجہ سے نقصانات کے خطرات بھی زیادہ ہوجاتے ہیں۔
آل بلوچستان نیشنل فروٹ اینڈ ویجیٹبل کمیشن ایجنٹ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری شیر علی نے بتایا کہ افغانستان اور ایران کی سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے کوئٹہ کی ہزارگنجی منڈی پھل اور سبزیوں کی سب سے بڑی منڈی سمجھی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ سیاسی تعلقات خراب ہونے کی وجہ سے سب زیادہ کوئٹہ کے تاجر، کمیشن ایجنٹ، بیوپاری، مزدور اور ٹرانسپورٹر متاثر ہوئے ہیں انہیں کروڑوں اربوں روپے کے نقصانات کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کمیشن ایجنٹ کہلانے والے کوئٹہ کے تاجر افغانستان جاکر کئی ماہ پہلے انگور اور انار کے باغات کے مالکان کو کروڑوں روپے کی پیشگی ادائیگی کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے لیے کھاد، کاغذ،شالی ،کریٹ سمیت دیگر ضروریات کا بندوبست کرسکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ باغ مالکان فصل تیار ہونے پر اپنا مال اسی تاجر کو بھیج کر ادائیگی کرتے ہیں لیکن گزشتہ کئی سالوں سے پیشگی سرمایہ کاری کرنےوالے ان تاجروں کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑرہا ہےکیونکہ ہر بار جب فصل تیار ہوتی ہے تو کسی نہ کسی وجہ سے سرحد بند ہوجاتی ہے۔کبھی حکومتیں خود تو کبھی لوگ احتجاج کرکے سرحد یا راستہ بند کردیتے ہیں جس کی وجہ سے تاجر مکمل قیمت ادا کرنے کے باوجود اپنا پھل پاکستان نہیں لاسکتے۔
ان کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے تعلقات میں خرابی پیدا ہونے سے تاجروں، مزدوروں اور ٹرانسپورٹرز کا کام متاثر ہے اور وہ پریشان ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان دنوں افغانستان سے انار ، انگور اور پیاز بڑے پیمانے پر آرہا تھا ۔ ترسیل متاثر ہونے سے کوئٹہ کی منڈی میں انار کی فی کلو قیمت میں سو سے ڈیڑھ سو روپے ، انگور کی قیمت میں دو سو روپے جبکہ پیاز کی قیمت میں بھی بیس سے تیس روپے فی کلو اضافہ ہوگیا ہے۔
 ہزارگنجی سبزی منڈی میں افغانستان سے انار کی درآمدکا کام کرنےوالے تاجر حاجی عبداللہ نے بتایا کہ کوئٹہ کے درجنوں تاجروں نے کئی ماہ پہلے ہی قندھار میں درجنوں باغ مالکان کوفی باغ ایک کروڑ سے پانچ کروڑ روپے تک ادائیگی کی۔
'میں نے بھی باغ مالکان کو کروڑوں روپے ادا کیے۔سرحد بند ہونے سے پہلے روزانہ دس سے پندرہ ٹرک انار منگواکر جنوبی پنجاب اور کراچی تک سپلائی کرتا تھا۔'

چمن میں دھرنے دینے والوں کا مطالبہ ہے کہ سرحد کے قریب رہنے والے دونوں ممالک کے شہریوں ویزے کی شرط سے استثنیٰ دیا جائے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

حاجی عبداللہ کے مطابق اب سرحد بند ہونے سے یہ سلسلہ بند ہوگیا ہے ۔ باغ مالکان کہہ رہے ہیں کہ انار تیار ہیں آپ اٹھالیں ۔ اگر ہم انار باغ سے نہیں اٹھاتے تو وہاں پڑے پڑے خراب ہوجائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب ہم حیران ہیں کہ انار لے کر کہاں جائیں ؟افغانستان کی منڈی میں فروخت کرنے سے ہمیں بہت کم قیمت ملے گی جبکہ طورخم یا کسی اور راستے سے پاکستان منگوانے سے وقت اوراخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے نقصان ہی ہوگا۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز(ایف پی سی سی آئی ) کے سابق سربراہ  حاجی دارو خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیاسی تعلقات خراب ہونے کے سب سے زیادہ منفی اثرات تجارت پر پڑے ہیں۔اس صورتحال سے نہ صرف چمن بلکہ پورے پاکستان اور افغانستان کے تاجر خسارے میں اورپریشان ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت پاکستان نے 212 آئٹمز کی افغانستان ترسیل پر پابندی لگادی ہے جبکہ باقی  افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر بھی 10 فیصد پروسسنگ ٹیکس اور بینک گارنٹی کی شرط عائد کردی ہے۔دوسری جانب افغانستان کی جانب سے بھی پاکستان سے پولٹری سمیت کئی اشیاء کی درآمد پر پابندیاں لگانے کی اطلاع ہے۔
پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں کپڑا، ٹائر ، الیکٹرانکس اور دیگر لگژری آئٹمزکراچی کی بندرگاہ سے افغانستان کے نام پر درآمد کرکے واپس پاکستان سمگل کرکے لائی جاتی ہیں جس سے ٹیکس کی مد میں پاکستان کو سالانہ اربوں روپے نقصان پہنچ رہا ہے ۔
دارو خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ سمگلنگ روکنے کے لیے اقدامات کی بجائے تجارت پر قدغن لگانا درست نہیں ۔دونوں ممالک کے اقدامات یکطرفہ ہیں جس سے نہ صرف تجارت بلکہ باہمی تعلقات پر بھی منفی اثرات پڑیں گے۔ تجارت کو سیاسی حالات کی بھینٹ چڑھانے کی بجائے اسے فروغ دے کر تعلقات کی بہتری کا ذریعہ بنانا چاہیے ۔
ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کو تجارت سے متعلق کوئی خدشات ہیں تو دونوں ملکوں کے حکام اور تاجروں پر مشتمل افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی کمیٹی میں اٹھایا جائے ۔ اس کمیٹی کا اجلاس ہر چھ ماہ بعد ہونا ضروری ہے مگر اشرف غنی دور سے اس کا کوئی اجلاس ہی نہیں ہوا۔ 

شیئر: