Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی میں تاجر کے گھر ’ڈکیتی‘، ایس ایس پی اور ڈی ایس پی ملوث نکلے

پولیس نے گھر سے نقدی اور قیمتی سامان لوٹا تھا اور دو افراد کو حراست میں بھی لیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
ساحلی شہر کراچی کے ضلع غربی کی حدود میں واقع ایک تاجر کے گھر پر جب دستک ہوئی تو آدھی سے زیادہ رات گزر چکی تھی۔
شہری کے دروازہ کھولتے ہی پولیس اہلکار داخل ہوئے اور گھروالوں کو ایک جانب کھڑا کر کے لاکھوں روپے کی نقدی، کافی مقدار میں سونا اور موبائل فونز اپنے قبضے میں لیے جب کہ دو افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔
واقعے کے خلاف متاثرہ خاندان نے اورنگی ٹاون کے پیر آباد پولیس سٹیشن میں درخواست دی۔
درخواست میں پولیس کو براہ راست نامزد کیا گیا تھا جس کے بعد میڈیا پر خبریں آنے کے بعد آئی جی سندھ رفعت مختیار نے نوٹس لیا اور ڈی آئی جی ویسٹ عاصم قائم خانی کو ہدایات جاری کیں کہ شفاف تحقیقات کر کے رپورٹ جلد از جلد پیش کی جائے۔  
ڈی آئی جی ویسٹ نے متاثرہ تاجر، ایس ایس پی ساؤتھ، زیرتربیت ڈی ایس پی سمیت دیگر پولیس افسروں اور اہلکاروں کے بیانات قلمبند کیے۔  
ڈی آئی جی ویسٹ کی رپورٹ نے ریڈ زون کی ذمہ داری سنبھالنے والے پولیس افسروں اور اہلکاروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے ہیں اور واقعے کو پولیس کی کارروائی نہیں بلکہ ڈکیتی قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ واردات میں ایس ایس پی ساؤتھ عمران قریشی اور زیرتربیت ڈی ایس پی عمیر طارق ملوث ہیں۔ 
درخواست گزار نے پولیس کو بتایا تھا کہ گھر آنے والے اہلکاروں کے ساتھ کچھ دیگر لوگ بھی آئے تھے جو ان کے گھر میں موجود رقم اور سامان کے بارے میں پوچھ رہے تھے اور سامان لوٹنے کے بعد دو بھائیوں کو بھی ساتھ لے گئے۔ 

شہری کی درخواست کے بعد آئی جی نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ’ باہر نکل کر دیکھا تو گھر کو چاروں طرف سے پولیس نے گھیر رکھا تھا اور باہر سڑک تک پولیس موجود تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پولیس کے لباس میں موجود افراد کے ساتھ مکمل تعاون کیا اور ان کے کہنے پر گاڑی میں بھی سوار ہوئے۔ گاڑی میں موجود افراد پہلے آپس میں بات کرت رہے اور پھر شاہراہ فیصل بلوچ کالونی کے قریب اتار دیا اور ہمارے گھر سے لیا گیا سامان اپنے ساتھ لے گئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کہا جارہا ہے کہ ہمارا کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہے جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔‘ 

کیا درخواست گزار ایم کیو ایم لندن کا مالی مددگار تھا؟  

پولیس انکوائری میں درخواست گزار سے معلومات حاصل کی گئیں کہ ان کا تعلق کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے ہے؟ جس پر درخواست گزار نے بتایا کہ ان کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 
انکوائری افسر نے ایس ایس پی ساؤتھ سے سوال کیا کہ انہیں کیسے معلوم ہوا کہ مذکورہ شہری کا تعلق ایم کیو ایم لندن سے ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ مخبر کی جانب سے اطلاع دی گئی تھی کہ اورنگی ٹاؤن کے ایک گھر میں ایم کیو ایم لندن کا مالی مددگار موجود ہے۔ 

انکوائری رپورٹ میں پولیس کی کارروائی کو ’ڈکیتی‘ قرار دیا گیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

زیرتربیت ڈی ایس پی عمیر طارق نے انکوائری افسر کو بتایا کہ ’انھیں ایس ایس پی ساؤتھ کی جانب سے معلومات فراہم کی گئیں کہ ایم کیو ایم لندن کے مالی مددگار کے خلاف کارروائی کرنی ہے اور ٹیم میں کچھ سویلین بھی شامل تھے اور کارروائی کو لیڈ کرنے والا شخص بھی سادہ لباس میں تھا جس کے کہنے پر ہی حراست میں لیے گئے دونوں افراد کو اتارا گیا تھا۔‘  

 پولیس افسروں کے ڈکیتی میں ملوث ہونے کا انکشاف کس نے کیا؟ 

رپورٹ کے مطابق ایس ایس پی ضلع ساؤتھ عمران قریشی اور زیرتربیت ڈی ایس پی عمیر طارق واقعے میں ملوث ہیں۔
دونوں افسروں کو عہدوں سے ہٹاتے ہوئے سینٹرل پولیس آفس رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔  

کیا ایسا حربہ پہلی بار استعمال کیا گیا؟ 

تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد کے مطابق پولیس کی جانب سے کسی کو کسی جماعت یا گروہ سے منسوب کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے قبل بھی ایسا ہو چکا ہے۔

کارروائی میں گرفتار کیے جانے والے دو افراد کو بلوچ کالونی کے قریب چھوڑ دیا گیا تھا (فائل فوٹو: اردو نیوز)

’یہ ایک عام سی بات ہے، کسی کو بھی ٹارگٹ کرنے کے لیے پولیس اس نوع کا اقدام کرتی ہے جو کسی طور پر درست  نہیں ہے۔‘
ایسے واقعات آئے روز سامنے آتے ہیں وقتی طور پر کچھ ایکشن ہوتا ہے اور کچھ ہی عرصہ بعد سب کچھ سرد خانے کی نذر ہوجاتا ہے۔‘  
جامعہ کراچی کے ڈیپارٹمنٹ آف کریمنالوجی کی پروفیسر ڈاکٹر ناعمہ سعید کے مطابق ’پولیس کسی کے خلاف کیس کو مضبوط کرنے کے لیے اس نوعیت کے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے۔ ایسے الزامات کے ذریعے مقدمات درج کر لیے جاتے ہیں اور پھر کئی سال مقدمات کا سامنے کرنے والوں کے بارے میں یہ فیصلہ آتا ہے کہ ان کا تعلق کسی گروہ یا سیاسی جماعت سے نہیں تھا لیکن اس دوران یہ لوگ بہت تکلیف سے گزرتے ہیں جس کا ازالہ کسی طور پر ممکن نہیں۔‘

شیئر: