مزمل اشرف کا سعودی عرب کا ویزا لگا تو انہیں یہ ہدایت کی گئی کہ وہ اس پر پروٹیکٹر لگوائیں جس کے لیے انہوں نے معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ اس مقصد کے لیے انہیں گجرات سے راولپنڈی جانا ہو گا۔
ان کے علم میں یہ بات آئی کہ راولپنڈی کے علاقے رحمان آباد میں واقع پروٹیکٹوریٹ دفتر سے ایک پیچیدہ اور طویل عمل سے گزر کر ہی پروٹیکٹر لگ سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
ڈومیسائل کی شرط، اوورسیز کو تعلیم کے حصول میں مشکلاتNode ID: 735381
-
ایئرپورٹ آؤٹ سورسنگ کیا ہے اور مسافروں کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟Node ID: 781461
یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اگر صبح نو بجے راولپنڈی پہنچیں گے تو وہ اپنا کام کروانے میں ناکام رہیں گے کیونکہ پروٹیکٹوریٹ دفتر کے باہر صبح سویرے ہی قطار لگنا شروع ہو جاتی ہے اور بعض اوقات دفتر کا وقت ختم ہو جاتا ہے لیکن یہ قطار ختم نہیں ہوتی۔
مزمل اشرف نے اس لیے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایک دن قبل ہی اپنے رشتے دار محمد ریاض کے پاس پہنچ جائیں گے جو سرکاری ملازمت کی وجہ سے ایک طویل عرصے سے اسلام آباد میں مقیم ہیں۔
ان کا یہ فیصلہ درست ثابت ہوا کیوںکہ اگلے روز پروٹیکوریٹ کے باہر طویل رَش تھا مگر وہ وقت پر فارغ ہو گئے۔
بیورو آف امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے 10 ماہ میں سات لاکھ 23 ہزار سے زیادہ افراد بیرونِ ملک گئے ہیں۔ ان افراد نے راولپنڈی سمیت ملک کے دیگر آٹھ علاقائی پروٹیکٹوریٹ دفاتر میں خود جا کر پروٹیکٹر لگوائے۔
روزانہ اوسطاً دو ہزار دو لوگ ان دفاتر کا رُخ کرتے ہیں جس سے نہ صرف ان کے وسائل خرچ ہوتے ہیں بلکہ کم تعلیم یافتہ ہونے کے باعث انہیں مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
پورے ملک میں صرف آٹھ دفاتر ہونے کی وجہ سے بیرون ملک جانے کے خواہش مند افراد کو طویل سفر بھی طے کرنا پڑتا ہے۔
امیگریشن قوانین کے مطابق ورک ویزے پر جانے والے شہریوں کو پروٹیکٹوریٹ آف امیگرنٹس کے دفتر میں اپنے پاسپورٹ، ویزے اور ملازمت کے معاہدے کی اصل دستاویزات کے علاوہ ان کی فوٹو کاپیاں اور تصاویر لے کر جانا ہوتا ہے۔ یہاں انہیں پروٹیکٹر کی فیس کے علاوہ ویلفیئر فنڈ اور اوورسیز شناختی کارڈ کی سلپ کی فیس کے ساتھ ہی چالان کی رقم بھی جمع کروانا ہوتی ہے۔
