Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا کو کشمیر پر یکطرفہ فیصلے کرنے کا اختیار نہیں: پاکستان

انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ’تاریخی‘ قرار دیا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان نے انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر پر انڈین سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔
نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے پیر کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے جو 70 برس سے زائد عرصے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق کیا جانا ہے۔ انڈیا کو کشمیری عوام اور پاکستان کی خواہشات کے برخلاف متنازع علاقے کے حوالے سے یک طرفہ فیصلے کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔‘
جلیل عباس جیلانی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان جموں و کشمیر پر انڈین آئین کی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتا۔ انڈیا کے آئین کے تابع کسی بھی عمل کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے۔‘
’انڈیا ملکی قانون سازی اور عدالتی فیصلوں کے بہانے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ انڈیا کے اِس کے زیرِقبضہ جموں و کشمیر سے الحاق کے منصوبے ناکام ہوں گے۔‘

جلیل عباس جیلانی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان جموں و کشمیر پر انڈین آئین کی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتا۔‘ (فوٹو: سکرین گریب)

پاکستان کے نگراں وزیر خارجہ نے کہا کہ ’پانچ اگست 2019 کے انڈیا کے یکطرفہ اور غیرقانونی اقدامات کی مسخ شدہ تاریخی اور قانونی دلائل پر مبنی عدالتی توثیق نظام انصاف کا تمسخر اڑانے کے برابر ہے۔‘
انہوں نے انڈین سپریم کورٹ کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’انڈین سپریم کورٹ کا فیصلہ جموں و کشمیر کے عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازع کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ کشمیری عوام کی امنگوں پر پورا اترنے میں بھی ناکام رہا ہے جو پہلے ہی انڈیا کے پانچ اگست 2019 کے غیرقانونی اور یکطرفہ اقدامات کو مسترد کر چکے ہیں۔‘
دوسری جانب انڈین سپریم کورٹ کی جانب سے نئی دہلی کے زیرِانتظام جموں و کشمیر میں آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے صدارتی حکم کو برقرار رکھنے کے فیصلے پر جہاں وزیراعظم نریندر مودی نے خوشی کا اظہار کیا وہیں کشمیری رہنماؤں نے اسے مایوس کن قرار دیا۔
انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کے سابق وزیراعلٰی اور نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے پیر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس فیصلے کے حوالے سے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’مایوس تو ہوں لیکن دل شکستہ نہیں۔ جدوجہد جاری رہے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہاں تک پہنچنے کے لیے بی جے پی کو کئی دہائیاں لگی ہیں۔ ہم بھی طویل سفر کے لیے تیار ہیں۔‘
دوسری جانب انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ’تاریخی‘ قرار دیا ہے۔
انہوں نے ایکس پر ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’آرٹیکل 370 کی منسوخی پر سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ تاریخی ہے اور آئینی طور پر 5 اگست 2019 کو انڈین پارلیمنٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتا ہے۔ یہ جموں و کشمیر اور لداخ میں ہماری بہنوں اور بھائیوں کے لیے امید، ترقی اور اتحاد کا ایک شاندار اعلان ہے۔‘
’آج کا فیصلہ صرف قانونی فیصلہ نہیں ہے۔ یہ امید کی کرن ہے، ایک روشن مستقبل کا وعدہ ہے اور ایک مضبوط اور زیادہ متحد انڈیا کی تعمیر کے ہمارے اجتماعی عزم کا ثبوت ہے۔‘
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ اور جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے ایکس پر جاری اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’میرے پیارے ہم وطنوں ہمت نہ ہارو امید نہ چھوڑو۔ جموں و کشمیر نے بہت سارے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ مشکل ہی سہی پر یہ ایک پڑاؤ ہے، یہ ہماری منزل نہیں ہے۔ اس کو منزل سمجھنے کی غلطی مت کرو۔ ہمارے مخالفین چاہتے ہیں کہ ہم امید چھوڑ کر دل برداشتہ ہو کے شکست کو تسلیم کریں۔ پر ایسا نہیں کرنا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے یہ کہا کہ 370 عارضی ہے اس لیے اس کو ہٹایا گیا۔ یہ ہماری ہار نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے تصور کی ہار ہے۔‘
سابق وزیراعظم پاکستان اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے جموں و کشمیر سے متعلق انڈین سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کیا ہے۔
مسلم لیگ ن کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق شہباز شریف نے کہا کہ 5 اگست 2019 کی طرح انڈین سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’انڈین سپریم کورٹ کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قرارداوں کے منافی ہے۔ اس لیے یہ فیصلہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ یہ فیصلہ دے کر انڈین سپریم کورٹ نے جرم کیا ہے۔‘

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کیا ہے؟

انڈین اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق چیف جسٹس چندرچوڑ نے فیصلے میں کہا ہے کہ ’جموں و کشمیر میں صدر جمہوریہ آئین کی تمام دفعات کو مرکز کی رضامندی سے لاگو کر سکتے ہیں اور اس کے لیے ریاستی اسمبلی کی بھی منظوری حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یونین ٹیریٹری کے لیے آرٹیکل 370 ایک عارضی اقدام ہے لہٰذا جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال ہونی چاہیے۔‘
سپریم کورٹ نے انڈین الیکشن کمیشن کو ستمبر 2024 تک جموں و کشمیر میں انتخابات کرانے کا بھی حکم  دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ’جموں و کشمیر میں کسی طور پر بھی خودمختاری کا عنصر موجود نہیں ہے اور نہ ہی داخلی طور پر خودمختار ہے۔ آرٹیکل 370 غیرمتناسب وفاقیت کی شکل ہے نہ کہ خودمختاری کی۔‘

شیئر: