کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ برقرار، انتخابات کرانے کا حکم
کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ برقرار، انتخابات کرانے کا حکم
پیر 11 دسمبر 2023 8:17
بی جے پی نے پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
انڈین سپریم کورٹ نے انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر میں آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے صدارتی حکم کو برقرار رکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں کی اپیلیں مسترد کر دی ہیں۔
انڈین اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق چیف جسٹس چندرچوڑ نے فیصلے میں کہا ہے کہ ’جموں و کشمیر میں صدر جمہوریہ آئین کی تمام دفعات کو مرکز کی رضامندی سے لاگو کر سکتے ہیں اور اس کے لیے ریاستی اسمبلی کی بھی منظوری حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔‘
پیر کو جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں بینچ نے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے فیصلے کے خلاف کشمیری سیاسی جماعتوں کی جانب سے دائر کی گئی اپیلوں پر محفوظ فیصلہ سنایا۔
انہوں نے کہا کہ ’یونین ٹریٹری کے لیے آرٹیکل 370 ایک عارضی اقدام ہے لہٰذا جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال ہونی چاہیے۔‘
سپریم کورٹ نے انڈین الیکشن کمیشن کو ستمبر 2024 تک جموں و کشمیر میں انتخابات کرانے کا بھی حکم دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ’جموں و کشمیر میں کسی طور پر بھی خودمختاری کا عنصر موجود نہیں ہے اور نہ ہی داخلی طور پر خودمختار ہے۔ آرٹیکل 370 غیرمتناسب وفاقیت کی شکل ہے نہ کہ خودمختاری کی۔‘
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ درخواست گزاروں نے صدارتی حکمنامے کو چیلنج نہیں کیا۔ حکمانے کے بعد صدارتی طاقت کا استعمال عدالتی جائزے کا معاملہ ہے۔
اس موقع پر جسٹس سنجے کشن کول نے کہا کہ ’فوج، جو جموں و کشمیر میں 370 کے خاتمے کے بعد سے موجود ہے، کا مقصد دشمنوں سے لڑنا ہے نہ کہ کسی ریاست کا امن و امان برقرار رکھنا۔‘
بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس سنجے کشن کول، سنجیو کھنہ، بی آر گاوائی، اور سوریا کانت شامل ہیں۔ پانچ ججوں پر مشتمل اس بینچ نے رواں سال 5 ستمبر کو درخواست گزاروں اور حکومت کی جانب سے 16 دنوں تک دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
انڈین اخبار ’دا ہندو‘ کے مطابق انڈین حکومت نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس میں کوئی آئینی دھوکہ دہی نہیں ہے اور اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد گزشتہ ساڑھے چار سال میں وادی میں خوشحالی آئی ہے۔‘
دوسری جانب درخواست گزاروں نے موقف اپنایا تھا کہ حکومت نے پارلیمنٹ میں اکثریت کا استعمال کیا اور صدر کے ذریعے ایک مکمل ریاست کو جموں و کشمیر اور لداخ کے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے لیے ایگزیکٹو آرڈرز کا سلسلہ جاری کیا۔
درخواست گزاروں نے حکومت کے اس اقدام کو ’وفاقیت پر حملہ اور آئین کے ساتھ دھوکہ‘ قرار دیا۔
کیس کے فیصلے کے موقع پر انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے سخت سکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق ’سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) سری نگر کی ہدایت پر انتظامیہ نے اتوار کی شام 29 سول اہلکاروں کو سری نگر شہر میں بطور مجسٹریٹ تعینات کیا ہے۔ سیکورٹی ایجنسیوں کو خدشہ ہے کہ کشمیر میں امن و امان کو متاثر کرنے کی کوششیں ہو سکتی ہیں۔‘
انڈیا کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔
وزارت داخلہ کے نوٹی فیکیشن میں کہا گیا تھا کہ جموں و کشمیر کو ’یونین ٹیریٹری آف جموں اینڈ کشمیر‘ کر دیا گیا ہے۔ اب وادی کشمیر میں مرکزی حکومت کے قوانین لاگو ہوں گے۔
انڈین آئین کا آرٹیکل 370 ہے کیا؟
انڈین آئین کا آرٹیکل 370 ریاست جموں و کشمیر کو انڈیا کی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں خصوصی حیثیت دیتا ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت اور داخلی خود مختاری حاصل تھی۔
آئین کا آرٹیکل 35 اے ریاست کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کشمیر کے مستقل باسیوں کی تشریح کرے اور ریاست کے باسیوں کے خصوصی حقوق اور مراعات کا تعین کرے۔
آرٹیکل 35 اے کو انڈیا کے آئین میں 1954 میں ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے شامل کیا گیا تھا۔ آرٹیکل کے تحت اگر کوئی کشمیری خاتون ریاست سے باہر کسی شخص سے شادی کرتی ہے تو وہ کشمیر میں جائیداد کا حق کھو بیٹھتی ہے۔ اس قانون کے تحت ریاست سے باہر کا کوئی بھی شہری کشمیر میں غیر منقولہ جائیداد نہیں خرید سکتا، مستقل رہائش نہیں رکھ سکتا اور ریاست کی جانب سے دیے جانے والے وظائف بھی حاصل نہیں کر سکتا۔
اس آرٹیکل کے تحت ریاستی حکومت ریاست کے باہر کے لوگوں کو نوکریوں پر نہیں رکھ سکتی۔
آئین کی شق 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے۔
اس شق کے تحت انڈیا کی یونین حکومت، خارجہ، دفاع اور مواصلات کے شعبوں میں ریاست کشمیر کی حکومت کی رائے سے مناسب قانون سازی کر سکتی ہے جبکہ دوسرے تمام معاملات میں ریاست کی اپنی قانون ساز اسمبلی کی مرضی کے بغیر کوئی مداخلت نہیں ہو سکتی۔