Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران یا نواز، گیم کہاں تک چلے گی؟ اجمل جامی کا کالم

مقبولیت برقرار رکھنا مقبول ہونے سے زیادہ مشکل اور اہم ہوا کرتا ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
شاعری اپنی جگہ لیکن  دسمبر کی شامیں واقعی پراسرار ہوا کرتی ہیں۔ خامشی اور خنکی میں جیسے ہی اضافہ ہوتا ہے تو  دہکتی انگیٹھی اور مہکتی چائے وغیرہ کی چسکی ’کیٹالِسٹ‘  کا کردار نبھاتے ہوئے ماحول ہی کچھ ایسے برپا کرتے ہیں کہ راز و نیاز قدرے سہل  ہو جاتا ہے۔ شرط مگر یہ ہے کہ مہمان اور میزبان کے بیچ  اعتماد کا رشتہ قدرے دیرینہ ہو۔ اور اگر یہ ماحول جڑواں شہروں کے کسی نواحی علاقے کی بیٹھک میں برپا ہو  تو  سیاسی و غیر سیاسی مدعوں پر چرچا  خاصی جاندار ہو جاتی ہے۔
ایک دو سیاستدان اور دو چار صحافی مہمان تھے، میزبان ایسے کہ ایک عرصے سے نہ صرف واقف حال ہیں بلکہ واقفان حال کے لیے تقریباً مرشد کا درجہ رکھتے ہیں۔  رات ڈھلی تو اکثریت چلتی بنی، باقی رہ گئے ہم، ایک سیاستدان اور ہمارے میزبان۔  
عرض کی کہ یہ میاں صاحب اچانک کس ڈگر پر چل نکلے، احتساب اور وہ بھی سابقہ ادوار کا؟  کیا یہ ایک بار پھر ٹکڑاؤ کی راہ پر گامزن نہیں ہو رہے؟    
وہ بولے: ان کے پاس آپشن کم ہو چکے ہیں، عوامی پذیرائی ویسی نہیں جس کی توقع لے کر وہ لندن سے لاہور پہنچے تھے، عدالتی معاملات میں ریلیف تو تقریباً مل چکا، مسئلہ عوامی میدان کا ہے۔ احتساب کے مدعے پر چند ماہ پہلے جب انہوں نے چرچا شروع کی تھی تو چھوٹے میاں صاحب فوراً لندن جا پہنچے تھے۔
اس کے بعد قدرے وقفہ آیا اور اب ایک بار پھر وہ یہی راگ الاپ رہے ہیں۔ وجوہات دو ہیں: سولہ ماہ کی پرفارمنس پر بیانیہ بن نہیں سکتا، پرانی کارکردگی پر توجہ حاصل کرنا بے سود ہوچکا، لہذا احتساب اور وہ بھی ان کا جن کے خلاف پہلے ہی سے ماحول گرم ہے ایک مناسب اور سوچا سمجھا ہتھیار ہے۔
نعرہ عارضی ہے تاکہ عوام اور میڈیا سے مخاطب ہونے کے لیے ایک مضبوط مدعا تو ہاتھ لگے۔  ’کورس کوریکشن‘ اور باہمی رضا مندی سے نعرہ بلند ہونے کے شواہد البتہ دستیاب نہیں کیونکہ ادارہ اس قدر طویل اور نقصان دہ احتساب برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔  لہذا اس نعرے کو آپ عارضی بندوبست ہی سمجھیں۔  
تو ایسے میں کپتان کا کیا کیجیے گا؟ جنون کم ہونے کے بجائے شعلے بلند کر رہا ہے، ان  کی گیم کہاں تک چلے گی؟  
صاحب بولے: مقبولیت کو برقرار رکھنا مقبول ہونے سے زیادہ مشکل اور اہم ہوا کرتا ہے، افسوس کہ وہ اپنی مقبولیت کی حفاظت اس طرح سے نہیں کر سکے جس کی ضرورت تھی اور رہے گی، رہنما وہ ہوتا ہے جو ’ڈیڈ اینڈ‘ سے راہ نکالے نہ کہ مقبولیت کے ساتھ ’ڈیڈ اینڈ‘ پر سر دے مارے۔ آپ ایسے صحافی نو مئی سے پہلے عموماً اور  بعد میں  بالخصوص انہیں سیاسی مکالمے کا مشورہ دیا کرتے تھے تو وہ کیا کہا کرتے تھے؟ عرض کی کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کا سیاسی وجود ہی تسلیم کرنے سے انکاری تھے، چوروں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہ تھے، بلکہ مسلسل طاقتور حلقوں سے بات چیت کی فرمائش ہی کیا کرتے تھے۔  

سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن نے اگلے عام انتخابات کے لیے آٹھ فروری کی تاریخ دی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

وہ بولے؛ یہی سب سے بڑی غلطی تھی، کھیل کے ضابطے طے کرنے کے لیے مل بیٹھتے تو صورتحال کچھ اور ہوتی، فواد چوہدری اور شاہ محمود  قریشی جن دنوں اس وقت کی سرکار کے ساتھ انتخابات کے مدعے پر مذاکرات کر رہے تھے اس بیچ بھی معاملہ فہمی کی راہ میں یہی ضد آڑے آئی تھی وگرنہ تحریک انصاف کا یہ وفد تقریباً سرکار کے ساتھ چناؤ کے مدعے پر اتفاق رائے کر چکا تھا۔ مگر کپتان نہ مانے۔  
بعد میں جب ادراک ہوا تو اس وقت کے ایک سینیئر انصافی رہنما کے توسط سے ایک ممتاز دانشور کے ہاتھوں لندن پیغام پہنچایا گیا مگر پھر لندن والے نہ مانے اور یہ لندن والوں کی غلطی تھی جو انہیں آنے والے دنوں میں بھگتنا پڑے گی کیونکہ اگر تو یہ دائروں کا سفر ہے تو پھر دائرہ بدلتے دیر ہی کتنی لگتی ہے۔  وہ کہاں کیسے اور کیوں غلط تھا؟ یہ بحث اب ثانوی ہو چکی، اصل مدعا اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور توانا سپورٹ گروپ ہے۔ پاکستان کا مستقبل اسی گروپ سے جڑا ہے کیونکہ اس کی اکثریت نوجوانوں پر مبنی ہے۔ اس گروپ کے سامنے متبادل بیانیہ نہیں رکھا گیا۔ یہی اپوزیشن کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ بلاول نے دانستہ کوشش کی کہ اس خلا کو پر کر سکیں مگر معمولی سی بھی سمجھ بوجھ رکھنے والا سیاسی ورکر یہ بخوبی جانتا ہے کہ یہ  ’گڈ کاپ بیڈ کاپ‘ کی پالیسی ہے ۔  ن لیگ کی لمبی چوڑی منشور کمیٹی جب تلک نئے منشور کے خدوخال واضح کرے گی تب تلک دیر ہو چکی ہوگی ۔ لہذا پھر سے انحصار وہیں ہوگا جہاں ہوا کرتا ہے اور اس بیچ میڈیا مزید مشکل کا شکار ہو گا۔  

انتخابات پر بدستور اگر مگر کیوں ہے؟ اندر کھاتے کیا چل رہا ہے؟  

وہ بولے: انتخابات کے لیے بین الاقوامی دباؤ بہت بڑھ چکا، عالمی قوتیں شفافیت کی بجائے انعقاد پر زیادہ فوکس کر رہی ہیں۔ فی الحال جڑواں شہروں میں خاموش رہنے والے  انتخابات دی گئی تاریخ پر ہی چاہتے ہیں مگر انہی کے تابع ایک اور حلقہ قدرے تاخیر کا خواہاں ہے۔ تاخیر میں  سب سے بڑی رکاوٹ منصف اعلیٰ ہیں۔ وہاں پہلے ہی بینچز کی تشکیل پر تنازعات سامنے آ چکے۔ لہذا اس محاذ پر مزید گدلا پن قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔ انتخابات مجبوری بن چکے ہیں۔  
چند دن کی تاخیر کی تو خیر ہے مگر زیادہ عرصے کے لیے بندوبست کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر گڑ بڑ ہے۔

کالم نگار کے مطابق عمران خان جیل میں کچھ صحافیوں سے ملاقات کی خواہش رکھتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

کپتان اب کس مشن پر ہیں؟  

بولے: چند ایک صحافیوں سے ملاقات کی خواہش رکھتے ہیں، تاکہ ان سے مل کرپیغام رسانی اور سیاسی عزائم کا اظہار کرسکیں۔ چند جید صحافیوں کی خواہش ہے کہ اجازت ملے تو ایک وفد کی صورت میں ان سے جیل میں ملا جا سکے۔  انہوں نے خود البتہ ’میرے کپتان‘ کی مالا جپنے والے اور ’سروے‘ کرنے والے ایک دو صحافیوں سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔  

بڑے میاں اور بڑی سرکار کے تعلقات کیسے ہیں؟  

صاحب بولے: ان تعلقات میں پسندیدگی تاحال جاری و ساری ہے ۔ چوتھی بار وہی غلطی نہ ہو اس کے لیے بڑی سرکار  نے فیلڈنگ پہلے ہی سے اس قدر تگڑی لگا رکھی ہے کہ ایسی تمام کاوشیں محض عارضی نعرے ہی ثابت ہوویں گی۔  

اوپر کہیں گڑ بڑ ہے؟ کچھ حلقوں میں کچھ مدعوں پر تناؤ ہے؟  

اس سے پہلے کہ صاحب جواب دیتے ، انگیٹھی میں دہکتی لکڑیوں  پر خدمتگار مٹی کا تیل پھیل چکا تھا، تیل کے اس ترونکے سے آگ ایسے بڑھکی کہ شرکا چنگاریوں سے بچنے کی جستجو میں مصروف ہو گئے اور گفتگو دم توڑ گئی۔ اور ہم بس یہی کہتے رہ گئے کہ 
پرسش عاشق بے چارہ کن اے جان جہاں  
تا شود زندہ جاوید ز پر سیدن تو۔۔۔!  

شیئر: